مذاکرات ختم کرنے کا اعلان پی ٹی آئی کو کتنا مہنگا پڑے گا؟

عمران خان نے حکومت سے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر کے پی ٹی آئی کی سیاست کو دفن کر دیا ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ایک اور غیر سیاسی حکمت عملی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔ مذاکراتی عمل کے خاتمے کے بعد جہاں عمران خان کی جیل یاترا کا مزید طویل ہونا یقینی ہو چکا ہے وہیں پی ٹی آئی کو کسی قسم کے ریلیف کی فراہمی کی تمام امیدیں بھی دم توڑ گئی ہیں مبصرین کے مطابق مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی کا وڑنا یقینی ہو چکا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے یوتھیوں کے مطالبے پر عمران خان سمیت دیگر پارٹی رہنماؤں کو این آر او دینے سے صاف انکار کے بعد پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم حکومت نے تحریک انصاف کے مذاکراتی عمل ختم کرنے کے فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کا مشورہ دے دیا ہے۔ دوسری جانب مبصرین کا تحریک انصاف کے اس فیصلے کو غیر سیاسی قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ٹرمپ انتظامیہ سے مایوس ہونے کے بعد ٹی آئی قیادت کی خواہش تھی کہ مذاکرات کے بہانے عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں پر مقدمات فوری ختم کر دئیے جائیں تاہم حکومت کی جانب سے ایسے کسی بھی مطالبے پر عملدرآمد سے صاف انکار کر دیا تھا۔ جس پر اب پی ٹی آئی نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ حکومت 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے انکاری تھی جبکہ حکومتی ذمہ داران کے مطابق پی ٹی آئی نے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے مذاکراتی عمل جلدی ختم کر کے صرف رسوائی کمائی ہے۔ یوتھیے رہنماؤں کو حکومتی جواب کا انتظار کرنا چاہیے تھا ویسے بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے پی ٹی آئی کی جانب سے دی گئی 7ورکنگ ڈیز کی ڈیڈ لائن منگل کو ختم ہو رہی ہے جس میں ابھی دن باقی ہیں۔ ایسے میں پی ٹی آئی نے قبل از وقت مذاکرات ختم کر کے اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ مبصرین کے مطابق مذاکراتی عمل میں ڈیڈ لاک کا حکومت کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہو گااس فیصلے کا خمیازہ پی ٹی آئی کو ہی بھگتنا پڑے گا کیونکہ مذاکراتی عمل کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کو کسی قسم کی ریلیف کی فراہمی کی تمام راہیں مسدود ہو گئی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکراتی عمل کے چوتھے دور کے کے لیے اجلاس بلانے سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات ختم کیے جانے کے اعلان پر ردِعمل دیتے ہوئے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور رہنما مسلم لیگ (ن) عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’اپوزیشن نے اپنے تحریری مطالبات دینے میں 42 روز لگائے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن نے ہم سے سات روز میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، پانچ روز مزید انتظار نہ کرنے کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔‘عمران خان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے باوجود ہم نے مذاکرات جاری رکھے، ہماری کمیٹی آج بھی قائم ہے، مذاکرات ختم کرنے کا اعلان افسوس ناک ہے۔‘حکومتی کمیٹی کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے خیال میں سات ورکنگ دن 28 جنوری کو مکمل ہو رہے ہیں، ہم نے کب کہا ہے کہ کمیشن نہیں بن رہا، ہم کمیشن کے حوالے سے ہی غور کر رہے ہیں۔‘ پی ٹی آئی کو صبر سے ہمارے جواب کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

دوسری جانب مبصرین بھی حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی معطلی کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ’دنیا بھر میں جمہوریت میں مذاکرات کو ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ تصور کیا جاتا ہے تاہم پی ٹی آئی ہمیشہ غیر سیاسی طریقوں یعنی دھونس، دباؤ اور دھاندلی سے ہی آگے بڑھنے پر یقین رکھتی ہے اب بھی کسی جواب سے قبل مذاکرات ختم کرنے کا اعلان پی ٹی آئی کا حکومت پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے تاہم لگتا ہے یہ حربہ اس بار پی ٹی آئی کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ  مذاکرات ختم کرنے کی صورت میں حکومت کا تو کوئی نقصان نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے تاہم اس فیصلے سے پی ٹی ائی کو ریلیف کی فراہمی کے تمام دروازےضرور بند ہو گئے ہیں۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد اب یوتھیے رہنماؤں کے مقدمات عدالتوں میں چلتے رہیں گے، ضمانتیں نہیں ہوں گی اور ایسے ان کی مشکلات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی رہیں گی۔‘

حکومت سے مذاکرات رکنے کے بعد PTI کے فوج سے رابطے بھی ختم

تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’مذاکرات کے خاتمے کی واحد وجہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی سیاسی قوتوں سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے بلکہ وہ ہمیشہ پسِ پردہ قوتوں یا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات چاہتے تھے۔‘’اُن کی جماعت کی موجودہ قیادت تو حکومت کے ساتھ مذاکرات چاہتی ہے اور وہ بات چیت کو کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن عمران خان خود اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی انہوں نے بات چیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔‘ تاہم۔بعض دیگر مبصرین کے مطابق اب بھی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے امکانات موجود ہیں۔‘ تاہم سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق عمران خان نے ان مذاکرات سے نکل کر حکومت کی مشکل آسان کر دی ہے۔ اس لیے بظاہر اس عمل کا نقصان پاکستان تحریک انصاف کو ہی ہوا ہے۔ تاہم ’اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کا مذاکراتی عمل بحال ہو جائے کیونکہ پی ٹی آئی کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مذاکرات کو آگے بڑھاتی ہے تب بھی اس سارے عمل کو چھتری حکومت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ہی ملے گی۔‘ تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ’مذاکرات ختم ہونے کی وجہ اصل وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ جو پس پردہ معاملات چل رہے تھے اس میں ایک دوسرے سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوئیں۔‘’اس لیے بظاہر حکومت سے جو مذاکرات جاری تھے ان کی افادیت ختم ہو گئی اور اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے بات چیت کو ختم کردیا۔‘

Back to top button