آرمی چیف سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف کا رویہ کیوں بدل گیا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے بیرسٹر گوہر خان کی آرمی چیف سے ملاقات کے بعد سے جس طرح کا جارحانہ رویہ اپنایا ہے اور جیسے مذاکراتی عمل کو خراب کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید اسنے اب حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ریلیف ملنے کی امید لگا لی ہے، حالانکہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں۔

 

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے زمانے سے پاکستان میں ’’بندوبستِ حکومت‘‘ طے کرنا فوج کے ادارے ہی کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کے پاس فوج ہوتی ہے جب کہ یہاں فوج کے پاس ایک ملک ہے جسے وہ پچھلے 75 برس سے اپنی مرضی سے چلا رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے کسی سیاسی لیڈر نے اس سسٹم کا متبادل تلاش کرنے کی سنجیدگی سے کوشش ہی نہیں کی، خصوصا ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد۔

 

سکیورٹی اہلکار بلوچ قوم پرستوں کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالنے لگے؟

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تین بار منتخب ہوئے وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد بھی اپنی جماعت کو قمر جاوید باجوہ کی معیادِ ملازمت میں تین سال بڑھانے کا حکم صادر کرتے ہیں اور کئی برسوں تک لندن ہی میں مقیم رہتے ہیں۔ وہ لندن میں تھے تو کرکٹ کی بدولت کرشمہ ساز ہوئے عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس پہنچ کر ’’ان‘‘ کے ساتھ ’’سیم پیج‘‘ پر لڈیاں ڈالنا شروع کردیں۔ لیکن اکتوبر 2021ء میں وہ اپنے عسکری سرپرستوں کو خفا کر بیٹھے۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آرمی چیف کے ساتھ نئے آئی ایس آئی چیف کی تعیناتی پر آڈا لگا لیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی تحادی جماعتوں کے ساتھ اکٹھا ہو کر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی۔  اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہو گئی اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ پر براجمان ہوگئے۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی روایات کے عین مطابق اقتدار سے معزول ہوجانے کے بعد سابق وزیر اعظم ان دنوں جیل میں ہیں اور مختلف مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہیں نام نہاد القادر ٹرسٹ کے تحت چودہ سال قیدکی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کی اہلیہ کو بھی شریک جرم ٹھہراکر سات سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ اقتدار سے فراغت کے بعد تحریک انصاف کو یقینا ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس جبر کا سامنا کرنے والوں سے ہمدردی کا اظہار کھل کر نہ بھی کریں تو کم از کم دل میں ضرور محسوس کرنا چاہیے۔ انتہائی خلوص سے ہمدردی محسوس کرتے ہوئے بھی لیکن مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ اب تحریک انصا ف نے کرنا کیا ہے۔ اصولی طورپر اسے کامل توجہ قبل از وقت انتخاب کے حصول پر مرتکز رکھنا چاہیے۔ فرض کیا انہیں وہ انتخاب مل گئے تو عمران خان اسی طرح وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ سکتے ہیں جیسے حال ہی میں ٹرمپ وائٹ ہاؤس لوٹا ہے۔

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس لوٹنے کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو معاف کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں۔ اسی طرح عمران خان کے مخالفین کو بھی ان سے اقتدار میں واپسی کے بعد ’’معافی‘‘ کی امید نہیں۔ ’’بداعتمادی‘‘ نے سیاسی عمل کو جامد کررکھا ہے۔

سنجیدہ معاملات کے متوازی ’’کامیڈی تھیٹر‘‘ بھی چل رہا ہے۔ تحریک انصاف ان دنوں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بجائے ’’آئین کی بالادستی‘‘ کا مطالبہ کررہی ہے۔ لیکن اس بالادستی کو ’’یقینی‘‘ بنانے کے لئے عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پشاور میں آرمی چیف سے ملاقات کی۔ لیکن اس ملاقات کے بعد سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے ایوان میں مسلسل شورشرابا مچارکھا ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ اسے اب اردولی نما وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت‘‘ سے مذاکرات کی ضرورت نہیں۔ گویا ’’عسکری پیا‘‘ کو ایک بار پھر رجھانا مقصود ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے میں تحریک انصاف کی قیادت نے اسٹیبلشمنٹ سے ریلیف ملنے کی غلط امیدیں لگا لی ہیں اور اسی لیے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا عمل توڑ دیا ہے۔

Back to top button