پاکستان کی اڑتی پتنگ اونچی فضاؤں میں کیسے رکھناہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ دو اڑھائی سال کی کوششوں کے بعد بالآخر پاکستان کی پتنگ اونچی فضاؤں میں اڑنے لگی ہے، اس سے پہلے کبھی گُڈی کو کَنّی دی گئی مگر وہ پوری طرح اڑ نہ سکی، کبھی اس کو تُنکے مارے گئے، کبھی یہ دھاگے سے اڑائی گئی اور کبھی مانجھا لگا کر اُڑانے کی کوشش کی گئی، کبھی ہم نے مچّھر یعنی لڑاکا پتنگ اڑائی اور کبھی پری کو پرواز کرائی، کبھی چونچ اور کبھی شرلا اڑا کر دیکھا، لیکن کامیابی تب ملی جب تین رنگی بھارتی پتنگ سے پاکستان کا پیچا پڑا۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں ہماری سبز گڈی نے مودی کی گڈی کا بو کاٹا کر کے رکھ دیا، وہی گڈی جو دو اڑھائی سال سے بے وزن اور بے سہارا پھرتی تھی، اب چڑھ گئی ہے اور اونچا ہی اونچا اڑ رہی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر کی زیر قیادت ترقی کا سفر جاری ہے اور مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔ سول حکومت اور فوج کا اکٹھے چلنا ویسے تو آگ اور پانی کو یکجا کرنے کے مترادف ہے مگر اس بار ان دونوں نے صبر، تحمل اور برداشت سے ہائبرڈ نظام کو چلانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ بھارت سے عملی جنگ ہو یا معاشی کامیابی کیلئے جدوجہد، فوج اور حکومت دونوں نے ہی سخت محنت اور مسلسل تعاون سے کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سپیس نہ ہونے کے باوجود اپنی سپیس بنانے کے فن سے بخوبی آشنا ہیں۔ بظاہر وہ نظام کے اندر دبے ہوئے نظر آتے تھے مگر مسلسل سفارتکاری اور شبانہ روز ’’محنت سے اب وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران شہباز شریف بظاہر سعودی ولی عہد کے پہلو میں سمٹے لگ رہے تھے لیکن سچ یہ ہے کہ پاکستان کا سفارت قد بہت اونچا ہو چکا ہے۔ ابہوں نے گردن اور سر نیچے کر کے جس طرح انہوں نے کام کیا ہے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ان کے سر پر ایک تاج کی شکل میں نمایاں ہو گیا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فیلڈ مارشل کے نام کا عین اور عاصم بمعنی محافظ بھی قابل غور ہے۔ علم الاعداد میں عین کو 6 نمبر دیئے جاتے ہیں جنرل عاصم منیر تین متضاد خوبیاں ہیں۔ ان میں عجزبھی ہے اور عزم بھی۔ وُہ ملنے میں عاجز ہیں مگر جب کسی بات کا عزم کرلیتے ہیں تو پھر اس بات سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹتے۔ عام طور پر عاجز اشخاص باعزم نہیں ہوتے اور باعزم عاجز نہیں ہوتے لیکن فیلڈ مارشل میں یہ عزم اور عاجزی دونوں موجود ہیں۔ تیسرا عین جو جنرل میں موجود ہے وہ عقل ہے۔ بیک وقت باعزم اور عقل مند ہونا بھی کم ہی دیکھنے میں آتا ہے مگر جنرل عاصم میں عاجزی، عزم اور عقل تینوں کا اشتراک نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بشریٰ بی بی عین کی بڑی فین تھیں اوروہ عمران، عثمان بزدار، صدر عارف علوی اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کے عین کو اپنی حکومت کا محافظ سمجھتی تھیں مگر وہ بھول گئیں کہ اسی عین کا عاصم اصل محافظ تھا کیونکہ اس کے نام کا لفظی مطلب ہی محافظ ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اب بشریٰ بی بی کے عین کو پاکستانی بساط پر مات کا سامنا ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے عین کو عروج ہے کیونکہ ان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دو اڑھائی سال سے پاکستانی وفود خلیج کے دورے کر رہے تھے۔ یہ سب کامیاب دورے تھے مگر معاشی طور پر لاحاصل ۔ خلیج کے اکثر ممالک نے ایک دہائی سے بھارت اور پاکستان سے تعلقات میں توازن اور غیر جانبداری کا رویہ اپنا رکھا تھا ،بھارت اس رویے سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی سپیس لے رہا تھا بلکہ جب مندروں اور مذہبی آزادیوں کے حوالے سے خلیجی ممالک میں نرمی آئی تو ایسا لگا کہ ہمارا مذہبی رشتہ کمزور ہو رہا ہے مگر پاکستانی اور بھارتی پتنگوں کا پیچ پڑا تو سارا خلیج اس پیچ کو بڑی دلچسپی اور حیرانی سے دیکھ رہا تھا، ایک طرف بھارت کے عالمی طاقت اور معاشی پاور ہونے کے دعوے اور دوسری طرف معاشی مسائل کا شکار پاکستان۔ سب اس وقت حیران، پریشان اور پشیمان ہوئے جب پاکستان نے بھارت کی طاقت کا نشہ ہرن کر کے اسکے 6 جہازمار گرائے اور یوں یہ جنگ پاکستان جیت گیا ہے۔

دوسری جانب بھارت کی پتنگ کٹنے کے بعد صدر ٹرمپ سے فیلڈ مارشل کی غیرروایتی ملاقات اور ایک دوسرے کے لئے تعریفی کلمات، ایران کے معاملے میں مصالحتی کردار اور اب قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد جراتمندانہ موقف نے پاکستانی پتنگ کی پرواز اور بھی بلند کر دی ہے۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ بھی پاکستانی موقف کی تائید ہے۔ ہم اندھیری گلی سے نکل کر دنیا کے دمکتے چوک کے مرکز میں آ چکے ہیں۔ اب اس چوک میں اپنے راستے کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہے۔ ماضی میں ہم اس طرح کا ہر موقع گنواتے رہے ہیں، لیکن اس بارہر گز ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے ہم نے جانی ،مالی اور اخلاقی قربانیاں دیں مگر یہ سودا ہمیں راس آنے کی بجائے آج تک گلے پڑا ہوا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ معاشی ہے مگر معاشی مسئلے کا دیرپا حل امداد، گرانٹ یا قرضہ نہیں بلکہ تجارت میں ایسا اضافہ ہے جس سے پاکستان کو دیرپا فائدہ ہو۔ قرض یا امداد وقتی ریلیف تو دے سکتے ہیں مگر اصل ضرورت پاکستانی برآمدات میں اضافے یا غیر ملکی سرمایہ کاری کی ہے جو پاکستان کی، معاشی طور پر، قوت میں اضافہ کر سکتی ہے ہمیں اپنے ملک کے داخلی اور سیاسی استحکام کو مضبوط بنانے کیساتھ ساتھ نئے معاشی راستے کھولنے چاہئیں۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پاک سعودی دفاعی معاہدے سے جہاں پاکستان سربلند ہوا ہے وہاں اس کیلئے نئے دفاعی اور سٹرٹیجک چیلنجز بھی پیدا ہو گئےہیں۔ پہلے ہم اسرائیل کا براہِ راست ہدف نہیں تھے مگر اب ہم مڈل ایسٹ کی سیاست اور جنگ میں اہم شراکت دار بن گئے ہیں اب وہاں کی جنگیں، امن یا مسائل، ہمارے لئے براہ راست مسئلہ ہوں گے۔ اسرائیل ٹیکنالوجی، علم اور مصنوعی ذہانت میں دنیا بھر سے آگے ہے۔ اس کے نئے آئیڈیاز کی تعداد امریکہ جیسے بڑے ملک سے بھی زیادہ ہے۔ اسرائیل نے لبنان، غزہ، شام اور ایران میں مصنوعی ذہانت سے درجنوں اشخاص کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ پاکستان اب اس جنگ کا بالواسطہ حصہ ہوگا لہذا ہمیں علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو اس سطح پر لے جانا ہو گا کہ ہماری پتنگ اسرائیلی پتنگ سے پیچا لڑا سکے۔ ہمارا حال ایران جیسا نہیں ہونا چاہئے کہ جنگ سے ایک روز پہلے ہی سارے اہم اثاثے ہدف بن جائیں۔ بڑی سیاست میں کودے ہیں تو اتنا ہی بڑا بھی بننا ہو گا۔ حرمین شریفین کی حفاظت کرنی ہے تو علم، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کو عروج پر لے جانا ہوگا کیونکہ آج کی ہر جنگ اور ہر مقابلے کی کرنسی جرأت یا ہتھیار نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور اسکی مہارت ہے۔ پہلے جنگیں بہادری سے جیتی جاتی تھیں اب عقل اور مہارت سے جیتی جاتی ہیں۔ اگر پاکستان کی گُڈی کو چڑھا کر رکھنا ہے تو آنے والے چیلنجز کیلئے بھی تیاری کریں وگرنہ گڈی بے وزن، بے قابو ہو جائے گی اور پھر ڈور ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے گی۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!