اگر چیف جسٹس اپنے دو سینئرز کی بات سن لیتے!!
تحریر : انصار عباسی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
جس سمجھ بوجھ اور بالغ نظری کی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے توقع تھی اُسی کا اُنہوں نے مظاہرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج حضرات جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی طرف سے آئینی بینچوں کے بننے سے قبل اور جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ سے پہلے ہی فوری طور پر فل کورٹ کا بینچ بنا کر اُس کے سامنے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو سننے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ نجانے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اتنی جلدی میں کیوں تھے لیکن اُن کی رائے میں فل کورٹ کے سامنے26ویں آئینی ترمیم کو رکھے جانے کا فیصلہ قانون کے مطابق اُن دونوں نے ججز کمیٹی کے ممبران کی حیثیت سے کیا۔
31 اکتوبر کو دونوں جج حضرات نے ججز کمیٹی کا فوری اجلاس منعقد کرنے کےلیے چیف جسٹس سے درخواست کی لیکن جب چیف جسٹس نے اُن کی درخواست کے مطابق عمل نہیں کیا تو دونوں جج حضرات نے آپس میں ہی بیٹھ کر ججز کمیٹی کی حیثیت سے 26 ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ جاری کر دیا ۔ اس فیصلہ پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمل نہیں کیا جس پر دونوں جج حضرات نے ایک خط کے ذریعے افسوس یا ناراضگی کا اظہار کیا اور اپنے عمل کو قانونی قرار دیا۔ 26ویں آئینی ترمیم کتنی ہی بُری یا متنازع کیوں نہ ہو لیکن جسٹس منصور اور جسٹس منیب جو کرنا چاہ رہے تھے وہ دراصل آئین کی رو سے درست نہ تھا اور ممکن ہے اسی بنیاد پر چیف جسٹس نے ان جج حضرات کی درخواست یا فیصلے کو سنا ان سنا کردیا ہو۔ آئین کے مطابق آئینی کیس اب سپریم کورٹ کا آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے لیکن جو جسٹس منصور اور جسٹس منیب کرنا چاہ رہے تھے وہ میری دانست میں نہ صرف غیر آئینی تھا بلکہ ایک ایسا عمل تھا جس پر اگر عملدرآمد کیا جاتا تو اُس سے سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی ایسا فیصلہ آ سکتا تھا جسے مس ایڈونچر قرار دیا جا سکتا تھا جس کے ممکنہ نتائج سے نہ صرف اداروں کے درمیان ایک بہت بڑی لڑائی شروع ہو سکتی تھی بلکہ ایک آئینی بحران کے ساتھ ساتھ ملک ایک شدید سیاسی و معاشی عدم استحکام کا بھی شکار ہو سکتا تھا۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب کا چیف جسٹس کو خط، 26ویں ترمیم کا کیس اسی ہفتے فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ
بہت سے لوگ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے توقع رکھے ہوئے ہیں کہ وہ حکومت، پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ سے فوری ٹکرا جائیں اور اس طرح اُن کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ تاہم جو چیف جسٹس کا ٹریک ریکارڈ ہے اُسے دیکھا جائے تو وہ قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ نہ اُنہیں ٹکرز چلوانے کا شوق ہوتا ہے نہ دوسروں کو خوش کرنے کےلیے کچھ ایسا کرنے کا کہ واہ واہ ہو جائے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم نے عدلیہ کو کمزور کیا۔ اگر سچ بات کی جائے تو ججوں کی سیاست اور عدالتی نظام کی انصاف کی فراہمی کی ناکامی نے عدلیہ کو کمزور کیا۔میری رائے میں، جس کا اظہار میں بار ہا کر چکا ہوں کہ، اگر پاکستان کی عدلیہ بشمول سپریم کورٹ نے اپنے آپ کو مضبوط کرنا ہے اور عوام کی نظروں میں احترام اور بہتر مقام حاصل کرنا ہے تو پھر سیاسی فیصلوں اور سیاست کی بجائے عوام کو جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔
اگر ہماری عدلیہ اور ہمارے ججوں کو تاریخ میں نام لکھوانا ہے تو پھر عوام کو انصاف فراہم کر کے دنیا کے ممالک میں پاکستان کی عدلیہ کو آخری نمبروں سے اُٹھا کر پہلے نمبروں پر لے کر آئیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام پر کسی کو اعتماد نہیں اور میں جب ’’کسی کو‘‘ کہتا ہوں تو اس کا مطلب عوام ہوتے ہیں جو عدالتوں میں اپنے مقدمات کے فیصلوں کا سالہا سال بلکہ دہائیوں تک انتظار کرتے ہیں، اپنا سب کچھ بیچ کر انصاف لینے کی آس میں زندگیاں گزار دیتے ہیں لیکن انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔ میری چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سرجری کریں اور اسے اس قابل بنائیں کہ لوگ عدالتوں میں جانے سے ڈرنے کی بجائے اُن پر اعتماد کرنا شروع کر دیں۔