سی پیک کے قیام سے گوادر کی اہمیت کیوں بڑھ گئی؟

بلوچستان سے عمان تک پاکستان کے ساحی علاقے پر پھیلی ساحلی پٹی کو گوادر کے نام سے پکارا جاتا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری کے قیام سے اس علاقے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے، بات کی جائے اگر گوادر کے محل وقوع کی، تو گوادر کراچی کے مغرب، ایران پاکستان سرحد کے مشرق جبکہ اومان کے شمال مشرق میں واقع ہے۔لفظ گوادر دراصل بلوچی زبان کے دو الفاظ ’گوا‘ اور ’در‘ سے مل کر بنا ہے، جس کے معنی ’ہوا کا دروازہ‘ ہے، گوادر کی تاریخ چار ہزار سال قبل مسیح سے بھی پرانی ہے، اس علاقے میں میسوپوٹیمیا اور سندھ کی قدیم تہذیب کے آثار بھی ملتے ہیں، جبکہ یہ خطہ ہمیشہ سے سمندری تجارت کے لیے ساز گار رہا ہے۔نادر میر کی لکھی کتاب تاریخ کی شطرنج کی بساط پر گوادر میں درج ہے کہ سکندر اعظم برصغیر سے واپس یونان جا رہا تھا تو اس کی بحری فوج کے ایک جنرل نے اپنا جہاز مکران کی بندرگاہ پر روک دیا۔ اس جنرل نے علاقے کے ماحول کو خوشگوار پایا اور دیکھا کہ خطے کے لوگوں عموماً مچھلی کا استعمال کھانے میں زیادہ کرتے ہیں یوں اس علاقے کا نام ماہی خوراں پڑا جو بعد میں بدل کر مکران ہو گیا-مورخ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ اس خطے میں سکندر اعظم کے جنرل سیلوکس نیکٹر نے علاقے میں اپنی حکومت قائم رہی جبکہ حضرت عمر بن خطاب کے دور اقتدار میں 643 عیسوی میں مکران پر مسلمان حاکموں نے اپنی ریاست قائم کی اور بعد ازاں مختلف مسلمان رہنماؤں نے اس خطے پر اپنی ریاست کی جڑوں کو مضبوط کیا۔16 ویں صدی عیسوی میں پر تگالیوں نے مکران کے متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا جن میں گوادر بھی شامل تھا۔1581ء میں پر تگالیوں نے اس علاقے کے 2 اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو لوٹنے کے بعد جلا کر خاکستر کر دیا تاہم زیادہ تر حکمرانی میں بلیدی اور گچکی ہی رہے ہیں۔ جب گچکیوں کی حکمرانی خاندانی اختلاف کی وجہ سے کمزور پڑی تو خان آف قلات میر نصیر خان اوّل نے اس پر قبضہ کیا۔کئی اہم کتب آرٹیکلز اور دیگر تحریروں میں بھی یہ واقع درج ہے کہ 1783 ء میں مسقط کے بادشاہ سلطان بن احمد کا اپنے بھائی سعد بن احمد سے جھگڑا ہوا جس پر سلطان بن احمد نے خان آف قلات میر نصیر خان کو خط لکھا جس میں اس نے یہاں آنے کی خواہش ظاہر کی، پاکستان کی 1947ء میں ایک الگ ریاست کے طو ر پر معرضِ وجود میں آنے کے بعد مکران، خاران، لسبیلہ اور خان آف قلات نے کے سرداروں نے ان ریاستوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔گوادر کی جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے گوادر کی ملکیت عمان سے پاکستان منتقل کر نے کے لیے سلطان آف عمان سعد بن تیمور سے باقاعدہ درخواست کی کہ گوادر میں پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔4 سال کے تبادلہ خیال کے بعد پاکستان نے عمان سے گوادر کا علاقہ 30 لاکھ ڈالرکے عوض خرید لیا۔وزیراعظم فیروز خان نے 7 ستمبر 1958 کو ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم سے خطاب کے دوران گوادر کی ملکیت پاکستان کا حصہ بنے کی خبر سنائی اور یوں 8 دسمبر 1958 کو گوادر باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا۔

Back to top button