عمران خان زندہ رہے تو 3 سال کے اندر اقتدار میں ہوں گے؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار حفیظ اللّہ خان نیازی نے کہا ہے کہ پاکستان ایک بے ہنگم سیاسی دلدل میں دھنس چکا ہے، عمران خان جیل میں ہوں یا باہر ، دونوں صورتیں ان کے وارے میں ہیں ۔ آج کے حالات کے تناظر میں گارنٹی سے کہا جاسکتا کہ عمران خان نے اپنی جان بچا لی تو 3 سال کے اندر اقتدار ان کی دہلیز پر ہوگا .اپنے ایک کالم میں حفیظ اللّہ نیازی لکھتے ہیں کہ نواز شریف انتہائی دانشمندی سے اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں ،انہیں اصولی سیاست اور تلخ زمینی حقائق دونوں کو لیکر چلنا ہے۔10 اپریل 2022 کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے عمران کے خلاف جو بھی تادیبی اقدامات کئے اس کے بعد عمران خان کی مقبولیت نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ حیف ! جنرل باجوہ کی تاحیات آرمی چیف رہنے کی دُھن ، عمران خان سیاست کیلئے بن مانگی نعمت ثابت ہوئی۔جنرل باجوہ کا شہباز شریف حکومت پر مستعفی ہونے کا دباؤ اور عمران خان کے جلسے جلوس سب جنرل باجوہ کی توسیع مدت ملازمت کیلئے تھے ، باجوہ کا احمقانہ پلان عمران خان کی مضبوط سیاست کیلئے تریاق ثابت ہوا ۔جنرل باجوہ کی ساری سازشیں ، اللہ کی اسکیم کے آگے ڈھیر ھو گئیں ، مگر یہ کریڈٹ نواز شریف کا ھے کہ کمال دانشمندی سے انہوں نے باجوہ پلان کو ناکام بنایا اور جنرل عاصم آرمی چیف بننے میں کامیاب ہوئے ۔ مگر اس وقت تک عمران سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا ۔ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف موقف بغیر روک ٹوک اپنائے رکھا جس سے انہیں رائے عامہ کو اپنے حق اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھڑکانے میں کامیابی ملی۔
حفیظ اللّہ خان نیازی کہتے ہیں کہ آٹھ فروری کا دن ، عوام الناس، عمران خان کی ذات سے جوڑ چکے ہیں۔ رائے عامہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے میچ کے حتمی نتیجے کے انتظار میں ، باقی بحثیں ضمنی ہیں ۔ سیاسی صورتحال کچھ یوں کہ عمران خان جیل میں یا باہر ، دونوں صورتیں انکے وارے میں ہیں ۔ آج کے حالات کے تناظر میں گارنٹی سے کہا جاسکتا ھے کہ 3 سال کے اندر اقتدار عمران کی دہلیز پر ہوگا وہ دہلیز چاہے جیل کی ہو یا گھر کی اور بشرطیکہ موصوف نے اپنی جان بچا لی ۔ مملکت ایک بے ہنگم سیاسی دلدل میں دھنس چکی ہے ۔ ملک کے سیاسی ، انتظامی نظم و نسق ، آئینی موشگافیاں، قانون کی حکمرانی سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر ہے ۔ 70 سال کے تجربے کی حامل اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے سیاسی فہم و فراست سے تہی دامن ہے ۔ ہائیکورٹ کی حد تک عدالتیں ایسے فیصلے دینے سے قاصر ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کے مزاج پر گراں گزریں ۔ نگران حکومتیں فقط کارپوریٹ مینجرز ہیں اور کچھ بھی نہیں ۔ بالفرض محال 8 فروری کو الیکشن کرابھی دیئے گئے ،نتائج کچھ بھی نکلیں ،کسی طور اسٹیبلشمنٹ اختیارات کی کُلی منتقلی نو منتخب حکومت کو نہیں کر پائے گی ۔
حفیظ اللّہ نیازی بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پچھلے چند مہینوں میں کئی ارادے باندھ کر توڑ چکی ہے ۔ مثلاً پہلا منصوبہ یہ تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی اکثریتی حکومت کے ساتھ 4 صوبائی حکومتیں بھی ھوں ، پلان نمبر دو یہ تھا الیکشن نہ ہوں اور ایک قومی حکومت کی تشکیل دی جائے تیسرے منصوبے کے تحت وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومتیں بنیں ، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور KP میں فضل الرحمن کی مخلوط حکومت ھو چوتھے منصوبے میں الیکشن کے بعد وفاق اور صوبوں میں قومی حکومتیں ھوں جن میں تحریک انصاف بھی شامل ھو ، ایسے تمام منصوبوں میں وزیراعظم نواز شریف ہی قرار دئیے گئے ۔ لیکن سوال یہ رھا کہ نواز شریف اس بھان متی کے کنبہ کی سربراہی قبول کریں گے یا نہیں؟ بظاہر انکے اعصاب پر اس وقت اپنے ووٹر ز اور سپورٹرز کو متحرک کرنے کا بھوت سوار ہے، اس کے لئے وہ سخت بیانیہ اپنا رہے ہیں۔اسٹیبلشمنٹ والے کاش ! عمران خان کی ذات کو ہدف ضروربناتے مگر ایسا حربہ بھی استعمال میں لاتے کہ رائے عامہ عمران سے بد دل رہتی ۔ آج اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے رائے عامہ تقسیم ھے جو ادارے کیلئے زہر قاتل ھے اور اس سے ملک دشمن فائدہ میں ہیں۔
حفیظ اللّہ نیازی لکھتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست اس وقت چوراہے پر ھے ان کے لئےمحفوظ راستہ ایک ہی ھے وہ یہ کہ عمران خان نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کریں اور اپنا مستقبل سنواریں ۔ بصورت دیگر سیاسی افراتفری میں ملک کا نقصان ، سیاسی جماعتوں کا مستقبل تاریک اور اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوگی۔ عمران خان کی سیاست کا مستقبل نواز شریف کی سیاست سے نتھی ہے۔ نواز شریف ناکام ہوئے تو عمران خان بھی تاحیات فارغ ھو جائیں گے ۔ تحریک انصاف کی قیادت اور وکلاء کا نواز شریف مخالف بیانات دینا اور اپنی تکلیفوں کا ذمہ دار نواز شریف، خواجہ آصف وغیرہ کو ٹھہرانا، منافقت کی بد ترین مثال ہے۔ اگر ان میں اصل زمہ داروں کے نام لینے کی جرات نہیں تو پھر کسی کانام نہ لیں۔ ۔ عمران خان کیلئے رہنماء اصول یہ ھے کہ نواز شریف کی گوجرانوالہ 20 اکتوبر 2020 کی تقریر یاد کرکے اسے اپنا لیں ۔ ملک جس مقام پر آن پہنچا ہے ، معروضی حالات میں، اسٹیبلشمنٹ کا ماؤرائے آئین اختیارات اپنے پاس رکھنا آج انکی مجبوری ہے۔ خدشہ ہے کہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر یا انتخابات کے انعقاد ۔۔ ہر دونوں صورتوں میں آئینی نظام شاید دوبارہ پٹڑی پر نہ چڑھ سکے۔ کاش! اسٹیبلشمنٹ، نواز شریف اور عمران خان مل بیٹھتے، تاکہ وطن عزیز کو اس دلدل سے نکالنے کا کوئی سبب بن پاتا۔ وطن کی فکر کسی

ہم سا ہو تو سامنے آئے، پاکستانی 79 ارب 81 کروڑ کی چائے پی گئے

کو ہے بھی یا نہیں؟

Back to top button