عمران کی کال مسترد: بیرون ملک مقیم پاکستانی ریکارڈ رقم بھیجنے لگے

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کی جانب سے ترسیلات زر پاکستان نہ بھجوانے کی کال سختی سے مسترد کر دی ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے موجودہ مالی سال کے دوران مارچ 2025 میں 4.1 ارب ڈالرز کی ریکارڈ ترسیلات زر اپنے ملک بھیجی گئیں، جو ایک مہینے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر 2024 میں اڈیالہ جیل میں مقید عمران خان نے اپنے خلاف الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ کردہ ان کے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’اگر ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو ایک تحریک کے تحت ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر زور دیں گے کہ وہ پاکستان بھیجی جانے والی ترسیلات زر کو محدود کریں اور بائیکاٹ مہم شروع کریں۔‘ تاہم عمران خان کی اس کال کے باوجود رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، دسمبر 2024 میں عمران خان کی جانب یہ بیان سامنے آنے کے بعد، جنوری 2025 میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر جنوری 2024 میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے 25 فیصد زیادہ تھیں۔ یاد رہے کہ جنوری 2025 میں موصول ہونے والی مجموعی ترسیلات زر 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھیں۔ اس کے بعد سے ہر ماہ موصول ہونے والی ترسیلات زر گذشتہ مالی سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں زیادہ رہی ہیں۔

اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے ایک ماہ میں 4.1 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہونے کے حوالے سے بتایا تو اُس کے کچھ ہی دیر بعد مرکزی بینک کے میڈیا ونگ کی جانب سے بھی یہی اعداد و شمار جاری کیے گئے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مارچ 2024 کے مقابلے میں مارچ 2025 میں موصول ہونے والی ترسیلات زر میں 37 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ رواں مالی سال ترسیلات زر 38 ارب رہنے کی توقع ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ترسیلات زر سے متعلق اعداد و شمار کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’سمندر پار پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں۔ مجھ سمیت پوری قوم کو اپنے محنت کش سمندر پار پاکستانیوں پر فخر ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ ’رواں مالی سال ترسیلات زر مجموعی طور پر 28 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ ترسیلات زر کا ریکارڈ سطح پر پہنچنا سمندر پار پاکستانیوں کے حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کی عکاسی ہے۔‘

سٹیٹ بینک کے جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ مارچ 2025 میں سعودی عرب سے مجموعی طور پر 98 کروڑ 73 لاکھ ڈالر، متحدہ عرب امارات سے 84 کروڑ سے زائد، جبکہ برطانیہ سے 68 کروڑ اور امریکہ سے 42 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ترسیلات زر موصول ہوئی ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان میں موصول ہونے والی ترسیلات زر نے پہلی بات چار ارب ڈالر کا ہدف عبور کیا ہے۔ اس سے پہلے مئی 2024 میں سب سے زیادہ 3.2 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں۔

اس حوالے سے مالیاتی امور کے تجزیہ کار فرحان محمود کا کہنا تھا کہ ترسیلات زر ڈالر بیسڈ ہوتی ہیں جو بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی جانب سے اپنے ملک میں اپنے گھر والوں کو یا بچت کے طور پر بھیجی جاتی ہیں، یہ ترسیلات بینکوں اور منی ایکسچنیج کمپنیوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہیں۔ مارچ 2025 میں ترسیلات زر میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرحان کا کہنا تھا کہ اس کی ایک بڑی وجہ رمضان اور عید کے موقع پر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے زیادہ رقم بھیجنے کا رجحان ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ غیررسمی اور غیر قانونی طریقوں اور حوالہ ہنڈی پر سختی کی وجہ سے قانونی طور پر اب زیادہ ڈالرز پاکستان آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ترسیلات زر کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے کیونکہ یہ کرنٹ اکاؤنٹ کو سپورٹ کرتے ہیں اور بیلنس آف پیمنٹ میں مدد فراہم کرتے ہیں یعنی ان ڈالروں کی وجہ سے پاکستان سے درآمد کے لیے باہر بھیجے جانے والوں ڈالروں کا خسارہ پورا کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا برآ مدات سے بھی ڈالر پاکستان آتے ہیں تاہم اب ترسیلات زر سے زیادہ آ رہے ہیں اور یہ رجحان نظر آ رہا ہے، جس سے لگتا ہے کہ رواں مالی سال میں 36 ارب ڈالر تک کی ترسیلات زر موصول ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ان کا ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان کو موصول ہونے والے مجموعی ترسیلات زر میں سے لگ بھگ دو تہائی مشرق وسطیٰ میں رہنے والے پاکستانی بھیجتے ہیں۔ اُن کے مطابق اس ضمن میں دیگر ممالک سے آنے والی رقوم میں اضافے نے بھی ترسیلات زر کے مجموعے کو بڑھایا ہے۔

وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر نجیب خاقان کے مطابق ترسیلات زر میں اضافے کی چار وجوہات سامنے آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق مارچ کے مہینے میں رمضان اور عید کی وجہ سے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بڑی رقوم پاکستان بھیجی گئی اور عموماً ایسا ہر سال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ اب انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں روپے اور ڈالر کی قیمت میں کوئی فرق نہیں رہا، اس لیے لوگوں کا رسمی یا قانونی چینلز کے ذریعے رقوم بھیجنے سے متعلق اعتماد بڑھا ہے اور اب بیرون ملک پاکستانی رسمی طریقوں سے پیسے واپس اپنے ملک بھیج رہے ہیں۔ دیگر وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نجیب خاقان کا کہنا تھا کہ حالیہ برسوں میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری روزگار کے لیے بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں، اس کی وجہ سے بھی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا۔ ان کے مطابق پاکستان میں گذشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے گھریلو اور مجموعی اخراجات بڑھے ہیں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک پاکستانی اپنے گھروں میں زیادہ سے زیادہ پیسے بھیجنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

تاہم ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق متعدد پالیسی اقدامات بھی ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ بنے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جیسا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھیجنے کے لیے بینکنگ چینلز کے ذریعے دی جانے والی ترغیبات وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بیرون ملک سے کیش ادائیگیاں بند ہو جانے کی وجہ سے حوالہ اور ہنڈی سے پیسے بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور لوگ اب زیادہ تر رسمی طریقوں سے اپنی رقوم پاکستان بھیج رہے ہیں۔

Back to top button