انڈیا کا پاکستان پر بنگلہ دیشی فوج میں بغاوت کی سازش کا الزام

بھارتی میڈیا نے اب یہ نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیشی فوج میں بغاوت کرانے کی کوششں کی ہے  جس کے بعد پاکستان کے حامی ایک سینئیر بنگالی جرنیل کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کی فوج نے انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی اُن خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی فوج میں بغاوت کی کوشش کی گئی جس کے بعد ’پاکستان کے حامی‘ ایک فوجی افسر جنرل فیض الرحمان کو بغاوت کے الزام کے تحت نظر بند کر دیا گیا ہے۔

انڈیا کے خبر رساں ادارے ’دی اکنامک ٹائمز‘ اور ’انڈیا ٹوڈے‘ میں شائع ہونے والی خبروں میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی فوج کی ’چین آف کمانڈ‘ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہے اور ’پاکستان اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے حامی افسر‘ لیفٹیننٹ جنرل فیض الرحمان دیگر جرنیلوں کی مدد سے آرمی چیف جنرل وقار الزماں کا عہدہ ہتھیانے کی کوششوں میں مصروف تھے، تاہم خاطر خواہ حمایت حاصل نہ ہونے کے باعث یہ کوشش ناکام رہی۔ یاد رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض الرحمان بنگلہ دیش کی فوج میں بطور ’کوارٹر ماسٹر جنرل‘ تعینات ہیں۔

پاکستان کی جانب سے انڈین ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اِن خبروں پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے جبکہ بنگلہ دیشی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی آئی ایس پی آر نے ان خبروں کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے جنرل فیض الرحمان نے حال ہی میں بنگلہ دیش میں موجود سیاسی عدم استحکام کے دوران آرمی چیف کے خلاف بغاوت کے لیے دستیاب اپنی طاقت اور حمایت کو جانچنے کے لیے آرمی ہیڈ کوارٹرم میں ایک اجلاس بھی طلب کیا تھا۔

دوسری جانب ’انڈیا ٹوڈے‘ نے 11 مارچ 2025 کو شائع ہونے والی خبر میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ’پاکستان کے حامی جنرل فیض الرحمان کو فوج میں مبینہ طور پر بغاوت کی کوشش کے الزام پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔‘ ’انڈیا ٹوڈے‘ کی خبر میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرمی چیف وقار الزمان نے لیفٹیننٹ جنرل فیض الرحمان کو زیر نگرانی رکھنے کا حکم نامہ تب جاری کیا جب انھیں ایسے اشارے ملنا شروع ہوئے کہ وہ اُن کی جگہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی آرمی چیف کے سیکریٹریٹ سے یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ جماعت اسلامی (بنگلہ دیش) کے حامی لیفٹیننٹ جنرل فیض الرحمٰن اُن کے علم میں لائے بغیر مرضی سے اجلاس طلب کر رہے ہیں جس کے بعد آرمی چیف نے ان کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد بنگلہ دیشی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی ’آئی ایس پی آر‘ کی جانب سے بھرپور مذمتی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں نہ صرف ان خبروں کو ’من گھڑت‘ قرار دیا گیا بلکہ انھیں ’غلط معلومات پھیلا کر بنگلہ دیش کے خلاف منظم سازش‘ قرار دیا ہے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس اور بنگلہ دیشی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے ان خبروں پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے جن میں بغاوت اور فوج میں چین آف کمانڈ کے ٹوٹنے کے خدشے کا اظہار کیا گیا ہے۔

بنگلہ دیشی فوج کے ترجمان کے مطابق ’یہ خبریں سراسر غلط ہیں اور بادی النظر میں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بنگلہ دیش اور اس کی مسلح افواج کے استحکام اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کی غرض سے کی گئی ایک منظم سازش کا حصہ ہیں۔‘ فوجی ترجمان نے کہا کہ ’ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیشی فوج مضبوط، متحد اور چیف آف آرمی سٹاف کی قیادت میں اپنے آئینی فرائض سرانجام دینے کی مکمل پابند ہے۔ چین آف کمانڈ مستحکم ہے اور بنگلہ دیشی فوج بشمول سینیئر جنرل، آئین، چین آف کمانڈ اور بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ وفاداری میں غیر متزلزل ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ فوج کے اندر کسی بھی قسم کی ٹوٹ پھوٹ یا غداری سے متعلق تمام تر الزامات سراسر من گھڑت اور بد نیتی پر مبنی ہیں اور ان کا واحد مقصد منافرت پھیلانا ہے۔

بنگلہ دیشی آئی ایس پی آر ترجمان نے انڈین میڈیا پر جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ خاص طور پر تشویشناک ہے کہ بھارتی میڈیا مسلسل ایسی جھوٹی مہمات میں ملوث رہا ہے۔ ان کے مطابق بعض آن لائن پورٹلز اور ٹیلی ویژن چینلز نے بھی ان جھوٹی خبروں کو پھیلایا گیا جس سے یہ مہم مزید شدت اختیار کر گئی۔ ہم ان میڈیا اداروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اچھی صحافتی روایات کی پاسداری کریں اور غیر مصدقہ اور سنسنی خیز کہانیاں شائع کرنے سے گریز کریں۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی سیاسی جماعت ’جماعت اسلامی‘ حال ہی میں تشکیل پانے والی محمد یونس کی عبوری حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو متعدد حلقوں میں ’پاکستان کے ہمدرد اسلامی دھڑے‘ کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ خیال رہے کہ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان سے علیحدگی کی مخالفت کی تھی۔ اسی تناظر میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی جانب جھکاؤ رکھنے والوں پر پاکستان نواز ہونے کا لزام عائد کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں کچھ عرصہ پہلے تک قریبی تعلقات تھے تاہم گذشتہ سال 5 اگست کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ حالات کچھ کشیدہ ہوئے ہیں۔ حسینہ واجد فی الحال انڈیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی ایک حالیہ تقریر بھی ملکی سیاست میں موضوع بحث بنی رہی ہے جس میں انھوں نے سیاسی جماعتوں کی ایکدوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے عمل کی مذمت کی تھی۔ اپنی تقریر میں آرمی چیف نے ملک کی آزادی اور خودمختاری کے معاملے پر لوگوں کو خبردار کیا تھا۔ تقریر کے دوران جنرل وقار الزمان کی باڈی لینگویج اور زبان خاصی سخت نظر آئی جس پر بنگلہ دیش کے سیاستدانوں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا۔

بہت سے سیاستدانوں کا خیال ہے کہ آرمی چیف کی حالیہ تقریر میں سخت زبان کی سب سے بڑی وجہ عبوری حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔

Back to top button