علی وزیر کی رہائی کے لیے PTM کے دھرنے میں شدت

پشتون تحفظ موومنٹ سے تعلق رکھنے والے باغی رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لئے سندھ اسمبلی کے باہر دیا جانے والا دھرنا اب دوسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے اور اس کے شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ علی وزیر کو کراچی میں ریاست مخالف تقریر کرنے پر غداری کے الزامات کا سامنا ہے اور وہ پچھلے ایک برس سے قید ہیں حالانکہ سپریم کورٹ ان کو ضمانت دے چکی ہے۔ دوسری جانب ریاست نت نئے کیسز بنا کر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھے ہوئے ہے۔
علی وزیر کی رہائی کے لیے سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا 13 فروری کو تب شروع ہوا تھا جب پی ٹی ایم کی جانب سے کراچی سینٹرل جیل میں قید رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے اندھ اسمبلی تک احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی۔ دھرنا شروع ہونے کے اگلے روز 14 فروری کو ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے مقدمے میں علی وزیر کی درخواست ضمانت انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مسترد کر دی تھی جسکے بعد سے یہ دھرنا مستقبل جاری ہے۔ علی وزیر کے کمسن بچے بھی اپنے والد کی رہائی کے لیے جاری دھرنے میں شریک ہیں۔
دھرنے کے لیے پانی، بجلی اور دیگر مد میں اخراجات پورے کرنے کے لیے شرکا چندہ بھی جمع کررہے ہیں۔ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا ہے کہ وہ علی وزیر کی رہائی تک دھرنا جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ علی وزیر کے خلاف دائر مقدمات واپس لیے جائیں جو ان کے بقول جعلی ہیں اور انہیں فوری رہا کیا جائے۔ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ ایک کیس میں سپریم کورٹ سے ضمانت منظور ہونے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہیں جان بوجھ کر دوسرے کیس میں الجھایا گیا تاکہ انہیں جیل میں ہی رکھا جائے۔
پیکا قانون میں ترمیم اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
منظور پشتین نے بتایا کہ ابھی تک ان کے مطالبات تسلیم کرنے میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی اور اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو ان کی تحریک کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں۔ پشتین کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے جبری گمشدہ افراد کے معاملے پر احتجاج کرنے والے بلوچ اور سندھی قوم پرستوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ وہ بھی لانگ مارچ کے آپشن پر بھی غور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی جمہوری جماعت ہونے کے ناطے ان کے جائز مطالبات پر غور کرے گی۔
یاد رہے کہ علی وزیر خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 2018 میں وہ پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے۔ ان کا تعلق احمد زئی وزیر قبیلے سےہے۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔
دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ میں انکے والد، بھائیوں، چچا، کزنز سمیت خاندان کے کم از کم 18 افراد مختلف واقعات میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان کا کاروبار بھی تباہ ہو گیا تھا۔ ان کے گھروں کو مسمار اور سیب کے باغات تباہ کر دیے گئے تھے جب کہ جنوبی وزیر ستان کے صدر مقام وانا میں ان کی مارکیٹ بھی تباہ کر دی گئی تھی۔ علی وزیر پر اس دوران کئی بار قاتلانہ حملے بھی ہوئے ہیں البتہ وہ خوش قسمتی سے بچنے میں کامیاب رہے۔
اپنے باغیانہ خیالات اور نظریات کی وجہ سے انہیں ایوان کے اندر اور باہر سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ان کی نااہلی کے لیے ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال کر رکھا ہے جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے خلاف مجرمانہ سازش کے علاوہ ریاستی اداروں کے خلاف ہتک آمیز بیانات بھی دیے۔
دسمبر 2020 میں انہیں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی منتقل کیا گیا تھا اور ان کے خلاف یہاں ریاست کے خلاف نفرت آمیز تقاریر کرکے لوگوں کو بغاوت اور فساد پر اکسانے کی دفعات کے تحت دو مقدمات قائم کیے گئے تھے جس میں سے ایک میں انہیں ضمانت مل چکی ہے لیکن دوسرے کیس کا فیصلہ نہیں ہو پا رہا۔