کیا فیض حمید کی طرح عمران کا بھی فوجی کورٹ مارشل ممکن ہے ؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ سویلین عدالتوں کی جانب سے عمران خان کو سزا کی بجائے ریلیف پر ریلیف دیے جانے کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بعد یہی راستہ باقی بچا تھا کہ بانی پی ٹی ائی کو فوجی عدالت میں گھسیٹ لیا جائے۔ ایسے میں عمران خان کے خدشات کے عین مطابق اگر کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید واقعی ان کے خلاف 9 مئی کے کیس میں وعدہ معاف گواہ بن جاتے ہیں تو پھر عمران کو فوجی عدالت سے سزا ملنا یقینی ہے۔
بی بی سی کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سلطانی گواہ کہہ لیں یا وعدہ معاف گواہ، یہ ہے بڑے کام کی شے۔ جس سے انتقام لینا، نشانِ عبرت بنانا یا سزا دینا مقصود ہو اگر اس کے خلاف ٹھوس ثبوت جمع نہ ہو سکیں تو پھر کسی بھی ہم راز یا شریکِ جرم و سازش کو اس لالچ پر توڑ لیا جاتا ہے، کہ اگر تم مرکزی ملزم کے خلاف گواہی دینے پر تیار ہو جاؤ تو یا تو تمھاری سزا کم ہو جائے گی، اور یا تم بری بھی ہو سکتے ہو۔ اس کے علاوہ دیگر رعایات و عنایات کی پیش کش بھی ممکن ہے۔ اب یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ سلطانی گواہ کا بیان سچ تصور کر کے قبول کر لے یا پھر اس کا دیگر حقائق سے موازنہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچے، لیکن عموما فوجی عدالت میں مرکزی ملزم یا ملزمان کو ہر صورت میں کیفرِ کردار تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
عمران خان نے فیض حمید کا اوپن ٹرائل کرنےکا مطالبہ کر دیا
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ اس وقت عمران خان پر کڑا وقت ہے۔ ان کے خلاف بھانت بھانت کے لگ بھگ 150 پرچے اور ریفرنسز دائر ہو چکے ہیں۔ مگر جن سات بڑے کیسز میں انھیں سزا ہوئی اسے اعلیٰ عدالتوں نے یا تو ختم کر دیا یا معطل کر دیا۔ اب رہ گیا 9 مئی کا قصہ جس میں عمران خان کو مرکزی سازشی ثابت کرنا مقصود ہے اور اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو پھر ان پر آرمی ایکٹ کے تحت خصوصی فوجی عدالت میں بھی مقدمہ چلا کر تیز رفتار انصاف کیا جا سکتا ہے۔ وسعت۔کہتے ہیں کہ یہ ہم نہیں کہہ رہے بلکہ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کی حراست اور ان کا کورٹ مارشل شروع ہونے کے بعد عمران خان خود کہہ رہے ہیں اور ساتھ میں اپنے پرانے وفادار ساتھی کو قوم کا اثاثہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب فوجی ترجمان ایک سے زائد مرتبہ اس امر پر افسوس کا اظہار کر چکے ہیں کہ 9 مئی کے تعلق سے سول عدالتوں کا نظام نہایت سست رفتار اور مایوس کن ہے۔ یاد رہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں گرفتار سویلینز کا فوجی عدالتوں سے ٹرائل ابھی تک اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کہ سپریم کورٹ نے ان کیسز پر فیصلے کرنے سے روک رکھا ہے۔
وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش ہوئی مگر اعلی عدالتوں نے اس کیس میں خان کو چھوٹ دے دی۔ توشہ خانہ کیس نمبرون میں بھی یہی ہوا اور اب توشہ خانہ نمبر دو ریفرنس عدالت میں پڑا ہے۔
عمران کے خلاف عدت کیس بھی ہوا میں اڑ گیا۔ القادر ٹرسٹ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ کا لانڈرنگ کیس جس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا نام بھی ہے، وہ بھی ایک عدالت میں زیرِ سماعت ہے اور مسلسل لٹکا ہوا ہے۔ بادشاہ گروں کو امید تھی کہ عمران خان کے ساتھیوں میں سے اگر از قسمِ پرویز الہی یا شاہ محمود قریشی ٹوٹ جائیں تو شکنجہ اور مضبوط ہو سکتا ہے۔ مگر دونوں شائد اپنی سیاسی اننگ کھیل چکے ہیں اور اب ان کی نظر میں انکے خاندان کی نئی نسل کا مستقبل ہے۔ جبکہ ملک ریاض نے سلطانی گواہ بننے کے مبینہ دباؤ سے جان چھڑانے کے بجائے دوبئی فرار کی راہ اختیار کی۔ ایسے میں اب عمران کو سزا دلوانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سارا دارومدار فیض حمید پر ہے جنھیں بظاہر ایک نجی جائدادی معاملے میں اختیارات سے تجاوز کرنے کی پاداش میں کورٹ مارشل کا سامنا ہے۔ مگر وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے اشارہ دیا ہے کہ تحقیقات کا دائرہ اور بھی بڑھ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ نو مئی تک پہنچ جائے۔ اگر فیض حمید نو مئی کے تعلق سے وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار ہو جاتے ہیں تو پھر عمران خان کا زد میں آنا ناگزیر ہے۔