کیا گوہر اعجاز کی بدولت عوام کو IPPs سے ریلیف ملنے والا ہے؟
سابق نگران وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز کی طرف سے آئی پی پیز کی سیاہ کاریاں سامنے لانے کے بعد عوام کا خون چوسنے والی انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کا معاملہ اپنے انجام کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف تحقیقات کے دوران ملک میں درآمدی ایندھن سے چلنے والے26آئی پی پیزکو گزشتہ 10سال کے دوران 1200ارب روپے سے زائد ادا کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔ وہیں دوسری جانب ناجائز منافع خوری میں ملوث 15 آئی پی پیز سے معاہدے مرحلہ وار ختم کرنے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔
خیال رہے کہ سابق نگران وفاقی وزیر، معروف بزنس مین اور لیک سٹی کے روح رواں گوہر اعجاز آئی پی پیز کی وارداتوں کو سامنے لے کر آئے تھے جس کے بعد ملک بھر میں آئی پی پیز کے کپیسِٹی چارجز کے خاتمے اور ان کمپنیوں سے معاہدوں پر نظرثانی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا تھا۔
دوسری جانب درآمدی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس کی 10 سالہ کپیسٹی پیمنٹس کا ڈیٹا سامنے آگیا ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے مطابق 2015 سے 2024 تک 1200 ارب روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق درآمدی ایندھن سے چلنے والے پاورپلانٹس کو بندش اور خرابی کے باوجود ادائیگیاں بلا تعطل جاری رہیں۔سی پی پی اے دستاویز کے مطابق ان بجلی گھروں میں سیکڑوں فنی خرابیوں کا انکشاف بھی ہوا۔ بعض پاور پلانٹس زیادہ تر وقت مکمل بند رہے، بعض کو صرف ضرورت کے وقت چلایا گیا مگر کیپسٹی پیمنٹ سب کو ملتی رہی۔
واضح رہے کہ بجلی کے شعبے میں مالی سال2017میں کیپسٹی پے منٹ کا حجم 384ارب روپے تھا جو نئی آئی پی پیز کے اضافہ کے ساتھ بڑھ کر 2142ارب روپے تک پہنچ گیا ہے ۔2015 سے بجلی کا اوسط استعمال 15000میگا واٹ رہا جبکہ مجموعی پیداواری صلاحیت 20ہزار میگا واٹ تھی جس پر کیپسٹی پے منٹ کی مد میں لاگت 200 ارب روپے تھی ۔ گوکہ 2024میں بجلی کی اوسط طلب 13000میگاواٹ ہی رہی لیکن پیداواری صلاحیت 43ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی۔ جس سے کیپسٹی پے منٹ میں2142؍ ارب کا اضافہ ہوگیا۔ 2015-16 میں طے ٹیرف کے مطابق اوسط کیپاسٹی ٹیرف 2.78 روپے فی یونٹ تھا۔ لیکن اب 2015کی پاور پالیسی کے تحت نئے پاور پلانٹس اضافہ کے ساتھ آئندہ مالی سال 2025کے لئے کیپسٹی ٹیرف بڑھ کر 18.39 روپے فی یونٹ ہوگیا ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ کپیسٹی پیمنٹس میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں کپیسٹی پیمنٹ بڑھنے کی بڑی وجہ روپے کی قدر کا گھٹنا بھی بتائی جاتی ہے جو ڈالر کے مقابلے میں 97روپے بڑھ کر 278روپے ہوگیا ہے اس کے علاوہ پورے خطے میں بلند ترین ٹیرف کی وجہ سے پاکستان میں صارفین نے بھی بجلی کا استعمال محدود کردیا ہے ۔ اس کی وجہ سے بھی کیپسٹی پے منٹ میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی صارفین مجموعی طور پر 12سے 13 میگا واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں لیکن انھیں کیپیسٹی چارجز 40 ہزار میگا واٹ کے دینا پڑتے ہیں۔ذرائع کے مطابق بڑھتی ہوئی کپیسٹی پیمنٹس پر قابو پانے کیلئے حکومت نے جہاں چینی آئی پی پیز سے رعایت حاصل کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر بات چیت کرنے جبکہ سرکاری پاورپلانٹس کے کپیسٹی پیمنٹ اور منافع میں بھی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت نے پندرہ انڈپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یعنی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے مرحلہ وار ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق 90 کی دہائی میں قائم چھ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے فوری ختم کیے جائیں گے اور نو آئی پی پیز سے معاہدہ مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ گل احمد انرجی لمیٹڈ، کوہ نور انرجی، لبرٹی پاور پروجیکٹ، ٹپال انرجی لمیٹڈ، اٹک جنریشن اور کیپ کو کے ساتھ معاہدہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، مذکورہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں توسیع نہیں ہوگی۔حکومتی ذرائع کے مطابق لال پیر، پاک جین، فوجی کبیر والا پاور، حبیب اللہ کوسٹل، جاپان پاور جنریشن، صبا پاور، حب کو، سدرن الیکٹریک پاور، روش پاور کے ساتھ بھی معاہدے مرحلہ وار ختم ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق’آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت 30 لیکن 60 روپے وصول کی جارہی ہے‘رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوے کی دہائی میں لگنے والی آئی پی پیز کے ساتھ معاہے آئندہ تین سے پانچ سال میں مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کیے جائیں گے۔