کیا اب بھی عمران کے بچ جانے کا کوئی امکان باقی ہے؟
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنی تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ نمبرز گیم پوری ہوجانے کے باوجود حکومتی وزراء یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی۔ وفاقی وزرا فواد چوہدری اور شیخ رشید مسلسل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ سیاست آخری لمحات میں ایک ڈرامائی رخ اختیار کر لے گی اور حکومت بچ جائے گی۔ حکومتی وزراء کے ان دعوؤں کے بعد سیاسی حلقے کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا واقعی عمران خان بچ جائیں گے؟
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنا اقتدار ختم ہوتا دیکھ کر عمران خان کے قریبی ساتھی باقاعدہ منصوبے کے تحت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت مضبوط ہے اور پس پردہ کچھ ایسا ہو رہا ہے جسکے نتیجے میں ان کی حکومت بچ جائے گی، دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم خود فوجی قیادت سے درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں باعزت طریقے سے گھر جانے کا راستہ دیا جائے اور تحریک عدم اعتماد واپس لی جائے تاکہ وہ استعفی دے کر قومی اسمبلی توڑ دیں۔
عمران خان کا اصرار ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے گھر جانے کے لیے ایک محفوظ راستہ دیا جائے تاکہ ان کی فیس سونگ بھی ہو جائے۔ تاہم اپوزیشن قیادت نے وزیراعظم کی یہ خواہش پوری کرنے سے انکار کر دیا یے اور وہ انہیں عدم اعتماد سے فارغ ہونے والے پہلے پاکستانی وزیر اعظم کا اعزاز عطا کرنے پر مصر ہے۔ بلاول بھٹو نے 31 مارچ کے روز وزیراعظم کو ایک ویڈیو پیغام میں یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ ایک سابق سپورٹس مین ہونے کے ناطے سپورٹس مین سپرٹ دکھائیں اور باعزت طریقے سے مستعفی ہو جائیں۔
اس دوران اسلام آباد میں سیاسی صورت حال ہر بدلتے پل کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اور بظاہر وزیراعظم ایوان میں اپنی عددی اکثریت کھو چکے ہیں۔ ہر لمحے بدلتی صورت حال میں ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تو ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان کا کھیل اب ختم ہوگیا ہے اور وہ باعزت طریقے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کریں گے۔
لیکن عین اسی وقت وزیراعظم ہاؤس اہم ملاقاتوں کا گڑھ بن گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یقین نہیں آرہا کہ ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ 39 مارچ کو وزیر اعظم کی خواہش پر عسکری قیادت کے ساتھ انکی ملاقاتوں کے دو ادوار بھی ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان نے تین گھنٹے کے دوران دو مرتبہ اعلٰی عسکری قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ وزیر اعظم نے پہلے پہل صحافیوں کو مبینہ دھمکی آمیز خط دکھانے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے صرف صحافیوں کو خط کے چند مندرجات بتانے پر اکتفا کیا۔
عسکری قیادت سے ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد عمران خان نے قوم سے خطاب موخر کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد وزیراعظم ہاؤس میں موجود سرکاری ٹیلی ویژن کا عملہ واپس روانہ کر دیا گیا۔ شاہراہ دستور پر وزیراعظم ہاؤس کے مرکزی دروازے پر میڈیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں، جہاں سیاسی غیر یقینی صورت حال سے متعلق اہم ملاقاتیں جاری تھیں۔
ان ملاقاتوں کے دوران وقتاً فوقتاً حکومتی ترجمان اور وفاقی وزرا میڈیا سے گفتگو کرنے بھی آئے۔ پہلے حکومتی میڈیا کمیٹی کے رکن فیصل جاوید اور وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے یکے بعد دیگرے علیحدہ علیحدہ میڈیا سے گفتگو کی، بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈاکٹر شہباز گِل اور فرخ حبیب کے ہمراہ بھی گفتگو کی۔ جب وزیراعظم ہاؤس میں ان اہم ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا تو عین اسی وقت متحدہ اپوزیشن کا بھی سندھ ہاؤس میں اجلاس ہو رہا تھا جس میں تحریک انصاف کے 22 ارکان قومی اسمبلی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں 190 سے زائد ارکان اسمبلی شریک ہوئے۔
بظاہر تو وزیراعظم کے پاس ایوان میں اکثریت برقرار رکھنے کی کوئی راہ نظر نہیں آرہی لیکن وفاقی وزرا وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقاتوں کے بعد انتہائی پر اعتماد نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے آنے والے وزرا آن دا ریکارڈ اور آف دا ریکارڈ بھی انتہائی پر اعتماد نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کئی وزرا سے ان کی پراعتمادی کے پیچھے چھپی وجہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کسی وزیر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری ایک موقع پر بولے کہ بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت جو سندھ ہاؤس میں بیٹھے ہیں وہ جلد پچھتائیں گے، بہت کچھ ہے جو ابھی بتایا نہیں جا سکتا۔ اسی دوران سینیٹر فیصل جاوید نے یہ دعوی کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن اپوزیشن اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہو جائے گی۔ یاد رہے کہ تحریک عدم اعتماد پر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ووٹنگ کرانے کے آئینی طورپر صرف تین روز ہی باقی ہیں۔
31 مارچ سے 2 اپریل تک تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث کے بعد چوتھے دن اس پر ووٹنگ کروائے جانے کا امکان ہے لیکن چونکہ 3 اپریل کو اتوار ہے لہذا ووٹنگ 4 اپریل کو ہونے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم کی شمولیت سے قبل بھی حزب اختلاف کو پارلیمنٹ میں 170 ارکان کی حمایت حاصل تھی مگر سات رکنی اتحادی جماعت کی شمولیت کے بعد اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 177 ووٹوں کی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ یاد رہے کہ 342 رکنی ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں۔
موجودہ صورتحال حال میں وزیراعظم صرف اس صورت میں اپنی حکومت بچا سکتے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم یا باپ کو حکومت میں واپسی پر قائل کر لیں یا اپوزیشن اور اس کے اتحادی ارکان کو قائل کر لیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ نہ دیں۔ تاہم ایسا ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم کے پاس دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کر کے فارغ ہوں یا اس سے پہلے ہی با عزت طریقے سے مستعفی ہو جائیں۔