کیا عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مغرب کا ہاتھ ہے؟
مغرب کو سب سے زیادہ سمجھنے کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل ہونے کے بعد اب کپتان کے ایما پر انکے ساتھی یہ چورن بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے ‘ایبسلوٹلی ناٹ’ کہنے کی پاداش میں انہیں اقتدار سے بیدخل کرنے کی سازش کی گئی ہے جس کے پیچھے دراصل مغربی ممالک کا ہاتھ ہے۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے عمران خان خود کو بھٹو ثانی بنانے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں جو کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔
کپتان کے ساتھیوں کے اس مضحکہ خیز دعوے کے بعد سوشل میڈیا پر عمران اور بزدار کے حوالے سے طرح طرح کے لطیفے وائرل ہو ریے ہیں اور سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان اور عثمان بزدار کی نااہلی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے۔ یہ بھیمپوچھا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے نام نہاد وسیم اکرم پلس کو ہٹانے میں امریکہ اور یورپ کی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ لیکن سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کا حامی طبقہ عمران خان کی حکومت کو درپیش مشکلات کو بین الاقوامی سیاست سے جوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل نے بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ’انٹرنیشنلی سپانسرڈ‘ قرار دے دیا یے۔
انکا کہنا یے کہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نہیں بلکہ عالمی طاقتیں لارہی ہیں، ان کے مطابق اپوزیشن والے تو صرف کرائے کے بروکر یعنی دلال ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں شہباز گل نے کہا کہ 21 جون 2021 کو جب وزیراعظم عمران خان نے افغانستان پر حملوں کے لیے امریکہ اور نیٹو افواج کو پاکستان میں اڈے دینے سے انکار کیا تو صورتحال یکسر بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ قومی سالمیت پر سمجھوتا نہ کرنے والوں کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے حالات آج عمران خان کو درپیش ہیں لیکن پھر بھی خان ڈٹ کر سب کا مقابلہ کرے گا۔
شہباز گل نے امریکہ کا براہ راست نام لینے کی بجائے بلاواسطہ الزام لگایا۔ بعد ازاں آف ریکارڈ گفتگو میں شہباز گل نے میڈیا کو یاد دلایا کہ کے امریکی صدر جو بائیڈن ابھی تک وزیراعظم عمران خان کو ایک فون کال کرنے سے بھی انکاری ہیں جس کی وجہ اب سمجھ آتی ہے۔
سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جب پاکستان میں عالمی طاقتوں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد امریکہ ہی ہوتا ہے۔ سابق تھری سٹار جنرل محمد ہارون اسلم بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو حکومت کو پیش آنے والی سیاسی مشکلات کو امریکی اور مغربی سیاست سمجھتے ہیں۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے اس معاملے پر اپنے تجزیے کو پانچ نقطوں میں تقسیم کیا اور لکھا کہ ’اگر عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے معزول ہوجاتے ہیں تو کوئی تیسری سیاسی قوت دہائیوں میں پاکستان میں نہیں ابھرے گی۔
پاکستان امریکہ اور مغرب کنٹرول میں چلا جائے گا۔ پھر متوازن خارجہ پالیسی اپنانا ممکن نہیں رہے گا۔ پی ٹی آئی کے لئے ہمدردی رکھنے والے ہارون کا کہنا تھا کہ پاکستانی سیاسی جماعتیں دوبارہ امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے لگ جائیں گی جس سے قومی مفاد پر سمجھوتے ہوں گے اور پاکستان معاشی آئی سی یو میں چلا جائے گا۔
اسی طرح وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے ایک تصویر پوسٹ کی جس میں اپوزیشن کے رہنماؤں کے کارٹونز کے ساتھ یورپی یونین اور امریکہ کا جھنڈا بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
اس تصویر کو سمجھنے کے لیے اس کے تناظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ یوکرین کی نیٹو میں شامل ہونے کی خواہش پر روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اب جنگ میں بدل گئی ہے اور ایک بار پھر امریکا سمیت مغربی ممالک اور روس ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ عمران خان وہ پہلے بین الاقوامی رہنما تھے جنہوں نے روس کی جانب سے یوکرین میں حملے شروع کرنے کے بعد روسی صدر پوتن سے ملاقات کی۔ پاکستانی حکومت کے مطابق صدر پوتن سے ملاقات میں بھی عمران خان نے معاملات کو سفارتکاری اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ یوکرین اور روس کے معاملے پر پاکستان نے غیرجانبدار مؤقف اختیار کر رکھا ہے اور روسی حملوں کی مذمت کرنے سے بھی عمران خان کی حکومت گریزاں نظر آتی ہے۔
رواں مہینے کی شروعات میں اس حوالے سے یورپین یونین کے 22 ممالک کے پاکستان میں ہیڈ آف مشنز نے پاکستانی حکومت کو خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان روس کے حملوں کی مذمت کرے۔ تاہم یورپین یونین کے نمائندوں کی جانب سے خط لکھنا پاکستانی حکومت کو پسند نہ آیا اور اس بات کا برملا اظہار وزیراعظم عمران خان خود ایک جلسے کے دوران کرچکے ہیں۔ پنجاب میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ابھی یورپین یونین کے سفیروں نے پاکستان کو خط لکھا کہ آپ روس کے خلاف بیان دیں، اس کے خلاف ووٹ دیں۔
میں یورپین یونین کے سفیروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے ہندوستان کو بھی یہ خط لکھا تھا؟ میں اپنی قوم کو یاد کروانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ پاکستان تھا جس نے نیٹو کی مدد کی، ہم نے وار آن ٹیرر میں ان کا ساتھ دیا۔ میں کبھی نہ ساتھ دیتا، میں اپنے ملک کو اس جنگ سے باہر رکھتا لیکن اس وقت کے سربراہ نے اس کا ساتھ دیا۔ تاہم سفارتی اور معاشی
پاکستان میں سیاسی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مبشر زیدی کا بھی خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم استحکام کا تعلق کسی بین الاقوامی سازش سے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بظاہر ایسا نہیں لگتا، مقامی سیاست میں ایک تاثر دیا جاتا ہے کہ سیاسی فیصلے امریکہ کے زیر اثر ہوتے تھے لیکن میرا نہیں خیال کہ ان سے ہمارے اب ایسے تعلقات ہیں۔ مبشر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے شروع کے دنوں سے ہی کہا جاتا تھا کہ یہ جب بھی گریں گے اپنے ہی بوجھ تلے گریں گے اور اب حکومت کے گرنے کا وقت آگیا ہے لیکن حکومتی حامی عمران خان کو بھٹو بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔