وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی اپنی جعلسازی پکڑی گئی


پائلٹوں پر جعل سازی سے جعلی لائسنس حاصل کرنے کا الزام عائد کرنے والے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کی اپنی جعلسازی پکڑی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ غلام سرور خان نے پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے اہنے نام کا فیک ڈپلومہ بنوایا۔ بورڈ کی رپورٹ نے راز فاش کردیا۔
خیال رہے کہ وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے اپنی سیاست کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کیا۔ 1988 کے انتخابات میں اٹک سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 1990 میں ختم کر دی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کی اور پھر نئی جماعتوں کی طرف دیکھا۔ پارٹی تبدیل کی پھر پرویز مشرف دور میں ان کا ستارہ چمکا اور ق لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی پہنچے۔ یہ وہ دور تھا جب اسمبلی میں بغیر پڑھے لکھوں کا راستہ روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کی اسمبلی تک رسائی ممکن بنانے کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی۔ اسی دور میں جعلی ڈگریوں کا کاروبار بھی اپنے انتہا کو پہنچا، کالج، یونیورسٹی اور مدارس سے سیاستدانوںنے جعلی ڈگریاں بنوائیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی سیاستدانوں کی تعلیمی ڈگریاں عدالت میں چیلنج بھی کی گئیں اور ان میں سے کئی نااہل بھی ہوئے۔ ان ہی میں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور مراد سعید بھی شامل تھے۔
غلام سرور خان کے گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے حاصل کردہ ڈپلومہ کو 2007 میں عدالت میں چیلنج کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت سے ہی سٹے لے لیا اور نااہلی سے بچ گئے حالانکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان کی ڈگری اور ڈپلومہ دونوں جعلی قرار دیے تھے۔ وہ وقت انہوں نے گزار لیا اور سپریم کورٹ نے 2013 میں غلام سرور خان کی قومی اسمبلی کی رکنیت جعلی ڈگری ہونے کی وجہ سے معطل کر دی۔ تاہم تبدیلی کے سفر میں وہ تحریک انصاف کے ہمنوا ہوئے تو غلام سرور بلا رکاوٹ قومی اسمبلی پہنچ گے۔ پھر یہ کمال بھی ہو گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے انکی جعلی قرار دی گئی دستاویزات مارچ 2019 میں اصل قرار دے دی گیئں۔ آخر تبدیلی کی ہوا چلنے کا کچھ تو فرق پڑنا تھا۔ اس طرح پرانے پاکستان میں نااہل قرار دیے جانے والے غلام سرور خان نے نئے پاکستان میں جعلی ڈگری کیس میں کلین چٹ حاصل کر لی اور ٹیکنیکل بورڈ کی رپورٹ کے برخلاف ان کے ڈپلومے کو اصلی قرار دے دیا گیا. اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران خان نے غلام سرور خان کو پیٹرولیم کی وزارت دی، لیکن ایل پی جی اسکینڈل کے بعد وزارت واپس لے لی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انہیں ایک طرف کر دیا جاتا لیکن انھیں انتہائی حساس یعنی ہوا بازی کی وزارت دے دی گئی۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال سپریم کورٹ میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے خلاف نا اہلی کی درخواست دائر کی گئی تھی، درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ غلام سرور خان میٹرک پاس ہیں اور ان کی بی اے کی ڈگری جعلی ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ کسی ایسے شخص کو وزارت کا منصب نہ دیا جائے جو صادق اور امین نہ ہو۔ لیکن کیس کی تحقیقات مکمل ہونے پر لاہور کی اینٹی کرپشن عدالت نے اس وقت کے وفاقی وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان کو جعلی ڈگری کیس سے بری قرار دے دیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر اینٹی کرپشن نے کہا تھا کہ تحقیقات میں غلام سرور کا ڈپلومہ درست پایا گیا۔
خیال رہے کہ وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے بدھ کو قومی اسمبلی میں کراچی طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ ملک میں موجود 860 ایکٹیو کمرشل پائلٹس میں سے 262 کے لائسنس مشکوک ہیں کیونکہ انہوں نے سول ایوی ایشن سے لائسنس لینے کے لیے اپنی جگہ کسی اور سے امتحان دلوایا۔ کراچی طیارہ حادثہ رپورٹ سامنے آجانے کے بعد جہاں کئی سوشل میڈیا صارفین وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کو پائلٹس پر لگائے جانے والے الزامات کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہیں اکثر ان کی ڈگری کے حوالے سے ہونے والی بحث میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ مشہور کامیڈین خالد بٹ نے غلام سرور خان کے حوالے سے وکی پیڈیا پرموجود معلومات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے پوچھا کہ ’غلام سرور صاحب سارے پائلٹس پوچھ رہے ہیں کہ آپ نے اپنی ڈگری کدھر سے صحیح کروائی تھی؟ُ
ٹوئٹر صارف سعد رشید نے خالد بٹ سے اتفاق کرتے ہوئے لکھا کہ ’درست کہا آپ نے، مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ باقی جعلی ڈگری والوں کو چھوڑ دیا جائے۔ بشمول سرور خان سب کو رگڑا لگنا چاہیے۔‘
ٹوئٹر صارف نواز کاشر نے لکھا کہ ’ اپنی ڈگری جعلی نکلی اور موصوف وزیر بنے بیٹھے ہیں اور طیارہ حادثے کو جعلی ڈگری سے جوڑ دیا گیا ہے۔‘
ٹوئٹر صارف آصف علی نے لکھا کہ ’جعلی ڈگری ہولڈر غلام سرور خان پارلیمنٹ میں جعلی ڈگری پر ڈیڑھ گھنٹہ تقریر کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ جعلی ڈگریوں والے مُلک و قوم کا کتنا نقصان کرتے ہیں‘۔ شرم انکو مگر نہیں آتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button