اسلام آباد ہراسانی کیس: کیا لڑکی 1 کروڑ لیکر پیچھے ہٹ گئی

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں ایک لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے اور انکی عریاں ویڈیوز بنانے کے کیس میں متاثرہ لڑکی مبینہ طور پر مرکزی ملزم سے ایک کروڑ روپیہ وصول کرنے کے بعد اپنے بیان سے منحرف ہو گئی ہے اور کیس کی پیروی سے انکار کر دیا یے۔

جب اس کیس میں نامزد عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیش کیا گیا تو متاثرہ لڑکا اور لڑکی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ مقدمے کا تفتیشی افسر انسپکٹر شفقت ملزمان کو لیکر عدالت میں پیش ہوا اور انکی حاضری لگا کر واپس بخشی خانہ لے گیا۔ تاہم انکے جانے کے بعد متاثرہ جوڑا عدالت میں پیش ہو گیا۔ جب کیس کی سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل شیر افضل نے لڑکی پر جرح کی تو وہ اپنے پہلے بیان سے منحرف ہو گئی اور یہ موقف اپنایا کہ پولیس والے مختلف اوقات میں سادہ کاغذوں پر اسکے دستخط اور انگوٹھے لگواتے رہے، اور یہ کہ وہ کسی ملزم کو نہ جانتی ہے، نہ پہچانتی ہے اور نہ ہی کیس کی پیروی کرنا چاہتی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ میں نے مرکزی ملزم عثمان مرزا کو بھی تاوان کی کوئی رقم ادا نہیں کی اور نہ ہی کسی ملزم نے مجھ سے زیادتی کی کوشش کی۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے متاثرہ لڑکی نے 16 جولائی 2021 کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ملزمان کو شناخت کر لیا تھا۔ تاہم 11 جنوری کو عدالت میں لڑکی نے ایک ملزم ریحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سمیت دیگر ملزمان کو مجھے تھانہ میں دکھایا گیا تھا، لیکن میں ریحان کو نہیں جانتی اور نہ ہی وہ میری ویڈیو بنا رہا تھا، پولیس نے یہ سارا معاملہ خود بنایا ہے۔

سونے پر سہاگی یہ کہ لڑکی نے عدالت میں حلف نامہ بھی دے دیا اور کہا کہ میں نے یہ بیان حلفی کسی کے دباؤ میں آکر نہیں دیا، اس نے بیان میں کہا کہ میں نے کسی ملزم کو نہ تو شناخت کیا تھا اور نہ ہی کسی پیپر پر دستخط کیے تھے۔ حلف نامے کی کاپی کے مطابق لڑکی نے بتایا کہ کیس میں گرفتار ملزمان وہ نہیں جنہوں نے واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔اس نے کہا کہ ان سے زیادتی کرنے والا ، ویڈیو بنانے والا یا جوڑے سختی کرنے والا کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے گرفتار ملزمان میں سے کسی کو بھی پولیس یا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے شناخت نہیں کیا اور وہ گرفتار ملزمان میں سے کسی بھی ملزم کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرنا چاہتی۔ اس نے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے حلف نامہ جمع کروا رہی ہے اور اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔

متاثرہ لڑکی نے عدالت کو بتایا کہ میں اس کے بعد پیش نہیں ہونا چاہتی، جس پر جج نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پیش تو ہونا پڑے گا۔عدالت نے متاثرہ لڑکی کے بیان پر مزید وکلا کی جرح کے لیے 18 جنوری کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ تاہم دوسری جانب سینئر صحافی روف کلاسرا نے دعویٰ کیا ہے کہ متاثرہ لڑکی نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سے ایک کروڑ روپے میں کیس واپس لینے کی ڈیل کی ہے جس کے بعد وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گئی ہے اور کیس واپس لینے کا کہہ فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2021 کے اوائل میں اسلام آباد پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک خاتون اور ایک مرد کو تشدد کا نشانہ بنانے اور برہنہ کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد 4 ملزمان کو گرفتار کرلیا تھا۔

حکومت کا عثمان مرزا کیس کی خود پیروی کرنے کا فیصلہ

پولیس کی جانب سے 6 جولائی کو درج ہونے والی ایف آئی آر میں بتایا گیا تھا کہ واقعہ گولڑہ پولیس تھانے کی حدود میں سیکٹر ای-11/2 کی ایک عمارت میں پیش آیا جس کا مقدمہ سب انسپکٹر کی شکایت پر درج کیا گیا تھا۔

اس کی تفتیش میں پتہ چلا تھا کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا کی یہ پہلی واردات نہیں رھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کا طریقہ کار ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے، ملزمان پراپرٹی اور کار ڈیلر ہیں اور انہوں نے علاقے میں فلیٹ خرید رکھا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان یہ فلیٹ ایک روز یا مختصر سے وقت کے لیے بھی کرایے پر دیتے تھے اور پھر فلیٹ کرایے پر لینے والے جوڑوں کو عین موقع پر جا لیتے اور پھر انکی عریاں ویڈیوز بنانے کر ان سے پیسے وصول کرتے تھے۔

اس متاثرہ جوڑے کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا لیکن دونوں نے بعد میں شادی کر لی تھی۔ دوسری جانب سینئیر صحافی رووف کلاسرا نے دعویٰ کیا ہے کہ جوڑے نے ملزمان سے صلح کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی ڈیل کی ہے اور پولیس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ ڈیل تب ہوئی یے جب مقدمہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچنے ہی والا تھا۔

Back to top button