گلگت بلتستان: عوام سیاسی جماعتوں سے کیا چاہتے ہیں؟

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے بارہویں انتخابات 15 نومبر کو منعقد ہو رہے ہیں۔ اسمبلی کے 24 میں سے 23 حلقوں میں پولنگ کےلیے ابتدائی انتظامات مکمل کر لیے گیے ہیں جب کہ حلقہ نمبر 3 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اور صوبائی صدر جعفر شاہ کے انتقال کی وجہ سے یہاں انتخابات 22 نومبر کو منعقد ہوں گے۔
سال 2009 میں جاری ہونے والے صدارتی آرڈر برائے امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس، جس میں گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دے دی گئی ہے، کے بعد علاقے میں یہ تیسرے انتخابات ہیں۔ گلگت بلتستان کے کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 745361 ہے جن میں خواتین ووٹروں کی تعداد 339992 جب کہ مرد ووٹروں کی تعداد 405350 ہے۔ انتخابی مرحلے کےلیے کل 1234 پولنگ اسٹیشن مقرر کیے گئے ہیں جن میں 415 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس اور 339 پولنگ اسٹیشن حساس قرار دیے گئے ہیں۔ ان انتخابات کےلیے 300 سے زائد امیدوار میدان میں ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سب سے زیادہ 24 حلقوں سے، پاکستان تحریک انصاف کے 21 حلقوں سے، پاکستان مسلم لیگ ن کے 18 حلقوں سے، پاکستان مسلم لیگ ق کے 16 اور جمعیت علمائے اسلام کے 13 حلقوں سے امیدوار شامل ہیں۔ رواں سال انتخابات میں چار خواتین بھی جنرل نشستوں پر انتخابات لڑ رہی ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سعدیہ دانش حلقہ 18 دیامر 4 تانگیر سے، جے یو آئی کے ٹکٹ پر مہناز ولی حلقہ 6 ہنزہ سے، پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر آمنہ انصاری حلقہ 23 گانچھے سے اور حلقہ 20 غذر 2 سے شہناز بھٹو آزاد حیثیت میں انتخابات لڑرہی ہیں۔ انتخابات کےلیے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم بھر پور طریقے سے چلائی۔ بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز جن کی اعلیٰ قیادت بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز کی قیادت میں وہاں موجود رہی.
پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم کو وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور، مراد سعید، وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری، وفاقی وزیر نیلوفر بختیار، چیف آرگنائزر سیف اللہ خان نیازی اور پاکستان مسلم لیگ ق کی مہم کو سینیٹر کامل علی آغا نے چلایا۔ جمعیت علمائے اسلام سے سینیٹر طلحہ محمود، سینیٹر مولانا عطا الرحمن، سینیٹر حافظ حمد اللہ، رکن قومی اسمبلی مولانا اسعد محمود جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔
یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی 73ویں جشن آزادی کے مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے حالیہ انتخابات کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت عرصہ دراز سے مقامی لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب رہی ہے۔ ہر انتخابات سے قبل گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا معاملہ سر اٹھاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے گزشتہ دور حکومت میں آئینی اصلاحات پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے مسلسل تین سال اس معاملے پر کام کیا اور سفارشات میں بتایا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے اور قومی اداروں میں نمائندگی دینے سے مسئلہ کشمیر متاثر نہیں ہوگا لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے ان سفارشات پر عملدرآمد نہیں کراسکی اور ایک نیا صدارتی آرڈر جاری کردیا۔ قانونی طور پر گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق 17 جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے بھی ایک فیصلہ سنایا جس میں نیا آرڈر جاری کیا گیا تاہم وفاقی حکومت نے اس پر دوبارہ اپنی رٹ پٹیشن دائر کی ہے اور کیس اب تک زیر سماعت ہے۔ مذکورہ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنائے تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اس کےلیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ حالیہ انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف اب تک بہت مطمئن ہے اور وزیر اعظم پاکستان کے اعلان کی بطور منشور تشہیر کی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ تحریک انصاف کے صوبائی سیکریٹری جنرل فتح اللہ خان کا کہنا ہے کہ دو پارٹیوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو اندھیروں میں رکھ کر عیاشیاں کی ہیں اور اب ان کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ہم عمران خان کی قیادت میں تمام دیرینہ مسائل حل کریں گے۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی قبل از انتخابات دھاندلی کا الزام لگا رہی ہیں۔ سابق وزیر اعلٰی اور مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمان کہتے ہیں کہ انتخابات کے پہلے شیڈول کے مطابق 17 اگست کو انتخابی دن قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت تک وفاقی حکومتی پارٹی کی جی بی میں کوئی پوزیشن نہیں تھی جس پر شیڈول کو غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کیا گیا۔ اس التوا کے بعد مسلم لیگ ن کے الیکٹیبلز اور سابق وزراء کو توڑنا شروع کردیا گیا۔’اب تک کم از کم ہمارے 6 الیکٹیبلز کو توڑا گیا ہے جو کہ قبل از انتخاب دھاندلی کا واضح ثبوت ہے۔‘
سینئر نائب صدر پاکستان پیپلز پارٹی و سابق ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد اور سابق مشیرِ اطلاعات و سیاحت، سیکریٹری اطلاعات پیپلز پارٹی سعدیہ دانش کا کہنا ہے کہ قبل از انتخاب دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑے گئے ہیں، وفاقی وزراء اب تک اربوں روپے کے اعلانات کرچکے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے ان تمام دعوؤں اور الزامات کے برعکس گلگت بلتستان کے عوام ان انتخابات کو ان کی زندگیاں آسان بنانے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں اور امیدواروں سے بنیادی آئینی اور سماجی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آئینی حقوق کا معاملہ گلگت بلتستان کےتمام اضلاع کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور انتظامی سہولیات کی فراہمی ان کے بڑے مطالبات ہیں۔ لوگوں کی خواہش ہے کہ ان انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندے علاقے میں پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹس میں اضافہ، میڈیکل اور ٹیچنگ کالجز کے قیام اور بجلی کی بلا تعطل ترسیل کےلیے کام کریں۔