پاکستان میں مہنگائی کم ہونے کے امکانات کیوں نہیں؟

پاکستان اس وقت مہنگائی کے طوفان کی زد میں ہے، جہاں آئے روز پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے روز مرہ استعمال کی اشیا بھی مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔قومی ادارہ شماریات کے مطابق عمومی کنزیومر پرائس انڈیکس کے اعتبار سے مہنگائی میں جنوری 2023 تک گذشتہ برس کے مقابلے میں 27.6 فیصد اضافہ ہوا، اس مضمون میں ہم مہنگائی سے متعلق کچھ سوالات کے جواب دیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا اگلے کچھ عرصے میں عوام کو مہنگائی سے کچھ ریلیف ملے گا یا نہیں۔
یعنی اگر اس سال آپ کو دودھ 100 روپے فی لیٹر مل رہا ہے اور اگلے سال اس کی قیمت 150 روپے فی لیٹر ہو جاتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ دودھ 50 فیصد مہنگا ہوا ہے، مہنگائی کا تعین پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے ذمے ہے، اس کے لیے بنیادی ضروریات اور خوراک کی کئی چیزوں کی ایک تصوراتی باسکٹ یا ٹوکری بنائی جاتی ہے اور پھر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے ایک ہفتے، ماہ یا سال میں اس ٹوکری کو خریدنے کے لیے کتنے پیسوں کی ضرورت تھی اور اب کتنے کی ضرورت ہے۔
اس ٹوکری میں شامل اشیا میں خوراک کی مد میں چکن، گندم، چاول، آٹا، پیاز، دودھ، دالیں، دیگر سبزیاں اور پکانے کا تیل جیسی اشیا ہیں، تاہم چند ماہرین کے مطابق کچھ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ اس ڈیٹا سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ ہمیشہ مہنگائی کی درست عکاسی نہیں کرتا لیکن فی الوقت پاکستان میں مہنگائی دیگر ممالک کی طرح اسی طریقے کے ذریعے جانچی جاتی ہے، ایکیومن فنڈ کی ریجنل منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ خان کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔
اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر اقتصادی غلط فیصلوں اور گورننس کے متعدد مسائل کی وجہ سے ہم اس صورتحال تک پہنچے ہیں۔چونکہ پاکستان اپنی گندم کا بہت بڑا حصہ بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے جبکہ خوردنی تیل سمیت پام آئل وغیرہ بھی ہم زیادہ تر دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں، اس لیے اگر ان چیزوں کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو ہمیں یہ چیزیں پاکستان میں بھی مہنگی ملیں گی۔
اس کے علاوہ ڈالر کی بڑھتی قیمت کی وجہ سے بھی جو چیز پہلے کم پیسوں میں پاکستان پہنچ رہی تھی اب اس کے لیے کہیں زیادہ پیسے ادا کرنے پڑ رہے ہیں۔اسٹیٹ بینک نے پہلے ہی شرحِ سود اس وقت 17 فیصد مقرر کر رکھی ہے جو پاکستانی تاریخ میں شاید ہی کبھی اتنی بلند رہی ہو، لیکن مہنگائی پھر بھی قابو میں نہیں آ رہی۔ڈاکٹر عائشہ کے مطابق پاکستان کو اس کے بنیادی مسائل حل کرنے اور مستحکم ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے راستے تلاش کرنے ہوں گے کیونکہ اب ان کے مطابق ’’مرہم پٹیوں‘‘ سے کام نہیں چلے گا۔ڈاکٹر عائشہ خان کے مطابق بے روزگاری، توانائی کے شعبے میں موجود مسائل، اور مہنگائی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے لوگوں کو پیسے دینا وہ چیزیں ہیں جو حکومت کے مالی خسارے میں اضافہ کر رہی ہیں، موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا لوگ ان کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ خان کہتی ہیں کہ بہت سی چیزوں کی طلب کم ہونے کی وجہ سے بالآخر شاید ان کی قیمتیں نیچے آ جائیں اور اگر حکومت نوٹ نہ چھاپے مگر وہ نہیں سمجھتیں کہ عمومی طور پر مہنگائی میں کوئی کمی ہوگی، مختلف اقتصادی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ طلب میں کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو ان کے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے جب تک کہ لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر نہ منتقل ہو جائیں۔جب یہ سوال ڈاکٹر عائشہ خان کے سامنے رکھا تو اُنھوں نے کہا کہ اگر بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر لوگوں کی تنخواہیں بڑھ گئیں تو اس سے مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر شروع ہو جائے گا، اس وقت اجرتیں اور تنخواہیں بالکل بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھ رہیں کیونکہ جب مہنگائی 30 فیصد کی شرح کو چھو رہی ہو تو ایسا کرنا ناممکن ہے، ڈاکٹر عائشہ خان کے مطابق اس سے پاکستانی عوام کے معیارِ زندگی میں کمی ہوگی۔