اٹارنی جنرل جیالے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا کیسے بنا؟
پاکستان کے پہلے اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ نے جنرل ایوب خان سے جنرل مشرف تک ہر فوجی ڈکٹیٹر کے غیر ائینی اقدامات کو آئینی جواز فراہم کیا۔ شریف پیرزادہ نے ہر فوجی آمر کی بیساکھی بنتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کو اقتدار میں رہنے کے آئینی اور قانونی راستے بنا کر دیے۔ لیکن افسوس کہ پچھلے کچھ عرصے سے جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والی پیپلزپارٹی کے ایک جیالے خاندان سے تعلق رکھنے والے موجودہ اٹارنی جنرل آف پاکستان، خالد جاوید خان، وہی مکروہ کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں جو ایک زمانے میں شریف الدین پیرزادہ ادا کیا کرتے تھے۔ زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ موصوف سابق وفاقی وزیر قانون پروفیسر این ڈی خان کے صاحبزادے ہیں۔
پاکستان کے پہلے آئین شکن سویلین وزیراعظم عمران خان نے جب قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز صدر عارف علوی کو بھجوانے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کے ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد محمود نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل کے اس فیصلے کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ شاید اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید بھی مستعفی ہو جائیں گے، تاہم جس روز یہ چہ میگوئیاں گردش کر رہی تھیں، اُسی شام وہ سپریم کورٹ پہنچ گئے اور حکومتی فیصلوں کا دفاع کرتے نظر آئے۔ ظاہر ہے ہے آئین کا دفاع کرنے کے لئے ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے۔
آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ شریف الدین پیرزادہ کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے آئین شکنی کرنے اور کروانے والا خالد جاوید خان نامی مکروہ کردار کون ہے۔ کراچی کے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے قانون کی تقریباً تمام تعلیم بیرون ملک سے حاصل کی ہے۔ انھوں نے کوئین میری یونیورسٹی لندن سے ایل ایل بی، آکسفورڈ یونیورسٹی سے بیچلر آف سول لا، ہاورڈ یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور لِنکنز اِن سے بار ایٹ لا کیا ہے۔ خالد جاوید خان کا کیریئر تقریباً تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ انھوں نے 1991 میں ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر اِن رول کیا اور سنہ 2004 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
خالد جاوید اور ان کے خاندان کا ماضی میں پیپلز پارٹی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اُن کے والد نبی داد خان المعروف این ڈی خان اور والدہ شمیم این ڈی خان کا شمار پیپلز پارٹی کے بنیادی اراکین میں ہوتا ہے۔ جب جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تو خالد جاوید کے والد اور والدہ ان چند لوگوں میں سے تھے جو پابند سلاسل ہوئے۔ 1988 میں جمہوریت کی بحالی اور پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد پروفیسر این ڈی خان بینظیر بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون و انصاف کے منصب پر فائز رہے۔
بینظیر کے دوسرے دور حکومت یعنی سنہ 1993 سے 1996کے دوران نوجوان خالد جاوید نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کے قانونی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں اور انھیں فخرالدین جی ابراہیم اور اقبال حیدر کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ وہ ممبر نجکاری کمیشن بھی رہے اور اس وقت اقوام متحدہ جانے والے حکومتی وفد میں بھی شامل تھے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف جب وکلا نے تحریک کا آغاز کیا تو انھوں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔2008 میں جب پیپلز پارٹی کی وفاق اور سندھ میں حکومت قائم ہوئی تو ان کی سوتیلی والدہ نرگس این ڈی خان کو خواتین کی نشت پر رکن سندھ اسمبلی منتخب کیا گیا، بعدازاں وہ صوبائی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہیں۔ اس سے اگلے انتخابات یعنی 2013 میں خالد جاوید کی اہلیہ ارم خالد مخصوص نشست پر رُکن صوبائی اسمبلی رہیں اور اسی سال جون میں خالد جاوید کو ایڈووکیٹ جنرل آف سندھ تعینات کیا گیا، لیکن ایک سال بعد ہی وی فارغ کر دیے گے گئے۔ لیکن اُنکی اہلیہ نے اسمبلی میں اپنی مدت پوری کی تھی۔
موجودہ حکومت نے خالد جاوید کو کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان کے مستعفی ہونے کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان تعینات کیا گیا تھا۔ پاکستان بار کونسل نے انور منصور خان سے سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے کیے گئے کچھ تبصروں پر استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ خالد جاوید کی تعیناتی کی تحریک انصاف کے لائرز فورم اور حامد خان نے مخالفت بھی کی تھی۔
سپریم کورٹ میں ان کے دور میں کراچی میں تجاوزات، میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج، پیکا قانون، کلبھوشن یادو، فلور کراسنگ جیسے مقدمات زیر سماعت رہے۔ تاہم ایک سابق وزیر وفاقی وزیر قانون کی اولاد ہونے کے باوجود انہوں نے اب تک عمران حکومت کے ہر غیر آئینی اقدام کا دفاع کیا ہے اور خود کو شریف الدین پیرزادہ جونیئر ثابت کیا ہے۔
خالد جاوید خان نے وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد دائر ہونے کے بعد وفاق کی جانب سے سپریم کورٹ میں یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا۔ تاہم اس یقین دہانی کے بعد نہ صرف اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدما اعتماد کو غیر آئینی طور پر مسترد کرکے آئین شکنی کی بلکہ وزیر اعظم نے صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کی غیر قانونی ایڈوائس جاری کردی اور صدر نے بھی غیر آئینی طور پر قومی اسمبلی توڑ دی۔ لیکن سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروانے والے خالد جاوید خان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ سپریم کورٹ میں پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کے مدمقابل خالد جاوید خان ہیں جن کے ماضی کے تعلقات کی وجہ سے اب پیپلز پارٹی کی قیادت ان سے شکوہ کر رہی ہے۔
جنرل باجوہ نے عمران کے حالیہ اقدامات کی نفی کیسے کی؟
پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر نثار احمد کھڑو کا کہنا ہے کہ خالد جاوید خان کی جانب سے عمران کی حمایت کرنا ’افسوسناک‘ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جمہوریت دوست خاندانی پس منظر ہونے کے باوجود آئین پر حملے کی حمایت اپنے بزرگوں کی جدوجہد کی توہین ہے۔‘
دوسری جانب آئین شکنوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا بھونڈا جواز پیش کرتے ایک تقریب سے خطاب کے دوران خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ آئین کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس سے قبل اُن کا مستعفی ہونے کا ارادہ تھا مگر اِن حالات میں استعفے کا مطلب میدان چھوڑ کر فرار ہونا ہوتا۔ سپریم کورٹ میں جاری کیس کی سماعت کے موقع پر انھوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بطور اٹارنی جنرل اُن کا یہ آخری مقدمہ ہے۔
ان کا یہ آخری کیس سہی لیکن یہ پاکستان کی جمہوری اور آئینی و پارلیمانی تاریخ کا بھی اہم مقدمہ بھی ہے جس میں خالد جاوید خان آئین شکنوں کا ساتھ دے کر اپنا نام پاکستانی تاریخ میں ولن کے طور پر یاد رکھے جانے والے شریف الدین پیرزادہ کے ساتھ لکھوا رہے ہیں۔