شہباز کیطرح وزیراعظم بنتے وقت عمران پر بھی کیسز تھے
سابق وزیراعظم عمران خان ابھی تک یہ رونا رو رہے ہیں کہ ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے جس کے خلاف ابھی کئی مقدمات زیر سماعت ہیں، لیکن یہ موقف اپناتے ہوئے کپتان خود بھول گئے کہ جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تب انکے اپنے علاوہ عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور شفقت محمود کے خلاف بھی کئی کیسز زیر التوا تھے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی قانون صرف الزامات کی بنیاد پر کسی شخص کو رکن پارلیمنٹ بننے سے نہیں روکتا۔
یاد رہے کے عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران شہباز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو اور وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے کئی کیسز بنائے گئے لیکن دو دفعہ گرفتار ہونے اور جیل میں رہنے کے باوجود کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہو پایا تھا۔ جس روز شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اس روز بھی ان پر ایک منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونا تھی لیکن ایف آئی اے حکام کی عدم پیشی کی وجہ سے نہ ہو پائی۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دن تک یہ کوشش کی کہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار ہو جائیں، لیکن ایسا نہ ہو پایا۔ لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں زیر سماعت منی لانڈرنگ کیس کی سماعت اب 27 اپریل کو ہونی ہے لیکن اس مقدمے میں سے شہباز کی بریت کا قوی امکان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس میں پنجاب کے ممکنہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف اپنے والد کے ساتھ شریک مجرم ہیں۔
لاہور کی سپیشل سینٹرل کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے نے مسلم لیگ ن کے صدر اور انکے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس کی نگرانی عمران خان کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوتے ہی شہزاد اکبر بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش میں ہے اور اپنا نام سٹاپ لسٹ پر ڈالے جانے پر سیخ پا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروائے جانے والے چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو 16 ارب روپے سے زیادہ کی منی لانڈرنگ کا فائدہ اٹھانے کاملزم ٹھہرایا گیا ہے،
یہ چالان بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں فوجداری جرائم کے تحت سپیشل کورٹ میں ٹرائل کے لیے جمع کرایا گیا تھا، شہباز نے اس کیس کو خارج کروانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ یہی مقدمہ پہلے نیب نے بھی بنایا اور تحقیقات میں ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔ لیکن یہ درخواست عدالت سے تب واپس لے لی گئی جب عدالت نے نیب کو اس کیس میں فریق نہ بنانے کا اعتراض اُٹھایا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے مارچ 2021 میں نہ صرف شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شریف پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا تھا بلکہ اپنی ہی جماعت کے رہنما جہانگیر ترین اور ان کے خاندان پر بھی مقدمات درج کروائے تھے۔ لیکن بعد میں جب جہانگیر ترین اپنا علیحدہ دھڑا بنا کر سیاسی طاقت کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے تو ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات روک دیں اور بیان دیا کہ ’بعض نئے حقائق‘ سامنے آنے پر اب ترین مزید تحقیقات کیلئے مطلوب نہیں رہے،
رات گئے عدالت کو کھولنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی وضاحت
شہباز شریف، جہانگیر ترین اور حمزہ شہباز نے ان کیسز میں گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانتیں بھی کروا رکھی ہیں۔ اقتدار کے آخری ہفتے میں عمران خان نے بھرپور کوشش کی کے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی ضمانت منسوخ کر کر انہیں گرفتار کروا لیا جائے لیکن انہیں کامیابی نہ ہو پائی۔
اسی سلسلے میں عمران نے اپنی حکومت کے آخری ہفتے میں فواد چوہدری کو وزیر قانون بھی بنا دیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے نے ہنگامی طور پر شہباز شریف کی ضمانت منسوخ کروانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ لیکن عدالت نے یہ ایف آئی اے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے بنیادی نقطہ یہ اُٹھایا کہ اب جبکہ کیس کا چالان پیش ہو چکا ہے اور صرف ٹرائل ہونا باقی ہے، تو ایف آئی اے ملزمان کو گرفتار کیوں کرنا چاہتی ہے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ ملزمان کو صرف تحقیقات کے لیے گرفتار کیا جاتا ہے جبکہ اس کیس میں بقول ایف آئی اے ہر طرح کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں، یاد رہے کہ ایف آئی اے نے اس کیس کا چالان دسمبر 2021 میں لاہور کی عدالت میں جمع کروایا تھا۔