سب سے یاری ڈال کر بھاری پڑنے والے آصف علی زرداری

 

ایک زرداری سب پر بھاری’ ثابت ہو جانے کے بعد سے سابق صدر اب اصرار کرتے نظر آتے ہیں

کہ اس نعرے کو تبدیل کیا جائے اور ‘ایک زرداری، سب سے یاری’ کے نعرے کو فروغ دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ سب سے بھاری اللہ تعالیٰ کی ذات ہے لہٰذا مجھے یہ نعرہ لگا کر گنہگار نہ کیا جائے۔ تاہم آصف علی زرداری کے مداحین کا اصرار ہے کہ انہوں نے خود کو عقل و فہم اور سیاسی بصیرت کے حوالے سے باقی تمام ساتھی سیاستدانوں سے زیادہ بھاری ثابت کیا ہے، انکا کہنا ہے کہ اگر زرداری نہ ہوتے تو عمران خان کا اقتدار سے جانا اور شہباز شریف کا وزیراعظم بننا کسی بھی صورت ممکن نہ ہوتا۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آصف زرداری نے سب سے یاری ڈال کر ایک مرتبہ پھر خود کو سب سے بھاری ثابت کردیا ہے۔

ایک برس قبل 16 مارچ 2021 کو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں جب آصف زرداری نے بغیر نام لیے نواز شریف کی ملک واپسی اور جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالنے کی بات کی تو مریم نواز ناراض ہو گئیں۔ یہ بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے عمران سے چھٹکارے کے لیے لانگ مارچ کی بجائے ایوان کے اندر سے تبدیلی لانے کی بات کی۔ ان دنوں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان حکومت کے خاتمے کی حکمت عملی پر اختلاف اور بداعتمادی کا ماحول بن چکا تھا۔

مسلم لیگ نون اور مولانا فضل الرحمان 27 مارچ 2021 کو لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کو حکومت سے نجات کا آخری اور فیصلہ کن حل سمجھتے ہوئے اس پر ڈٹ چکے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں کے اس اتحاد کی مشترکہ منزل اور مستقبل اس وقت تاریک دکھائی دینے لگا جب اجلاس کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اٹھ گئے۔

حکومت مخالف جماعتوں کی صفوں میں انتشار کے ماحول میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پورے ایک سال بعد یہی جماعتیں اپنے سیاسی حریف عمران خان کو زیر دام لے آئیں گی۔ وہ بھی اس طرح کہ اتحادیوں کا ساتھ ہی نہیں چھوٹے گا بلکہ اپنے ممبران اسمبلی بھی چھوڑ جائیں گے۔

جب پی ڈی ایم میں شامل اکثریتی جماعتوں کے قائدین لانگ مارچ اور استعفوں کو ٹرمپ کارڈ قرار دے رہے تھے، اس کے برخلاف ایک شخصیت نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ ’کبھی ہم سے بھی سیاست سیکھ لیا کریں۔‘ سابق صدر آصف علی زرداری کے کہے ہوئے یہ الفاظ حکومت کی رخصتی کے ایک متبادل اور ممکنہ طریقہ کار کا ابتدائی اشارہ قرار دیئے جا سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آصف زرداری اپنے سیاسی حلیفوں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے برعکس سیاسی فتح کے لیے ترپ کا جو پتا سینے سے لگائے بیٹھے تھے اس نے کام دکھا دیا ہے۔

نوابزادہ نصراللہ خان کی ساری زندگی اتحاد بنانے، سیاسی تحریکیں شروع کرنے اور حکومتیں گرانے میں گزری۔ مخالفین کو ساتھ ملانے کا ملکہ ہی تھا جس کے بل بوتے پر انہوں نے ایوب خان سے مشرف تک کی حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں منظم کیں۔ نوابزادہ نصراللہ خان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ہم آصف زرداری کو اس روایت کا نیا امین قرار دے سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی توڑنے کی بجائے جوڑنے پر یقین رکھتے ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتجاجی تحریکوں اور سیاسی اتحادوں کی ایک قدر مشترک اور خاصہ رہی ہے، وہ ہے تبدیلی کی تحریکوں کا طویل احتجاج ، تشدد، توڑ پھوڑ اور آخر میں حکومت وقت کی رخصتی کا غیر آئینی انداز اور طریقہ کار۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی پہلا موقع تھا جب سڑکوں پر صدائے احتجاج اور ہنگاموں کے بغیر منتخب ایوان کی مرضی سے حکومت گھر چلی گئی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقہ کار کے تصور کی صورت گری کا معمار اگر آصف علی زرداری کو قرار دیا جائے تو اس پر یقین کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات حکومت کے لیے ایوان بالا میں عددی اکثریت میں اضافے کی وجہ سے آئینی اور جمہوری مضبوطی کا ذریعہ بننے والے تھے۔

مگر یوسف رضا گیلانی کی غیرمتوقع جیت نے تحریک انصاف کی ہر حوالے سے مضبوط سمجھی جانے والی حکومت کی فصیل میں چھوٹا سا شگاف ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلوں سے لاتعلقی کی وجہ سے 27 مارچ 2021 کا مجوزہ مارچ ملتوی ہوا تو مخالفین نے اس پر شادیانے بجائے۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اپوزیشن اتحاد سے علیحدگی سے بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ حکومت مخالف جماعتوں کے پاس آئندہ انتخابات کی تیاری کے سوا اقتدار میں آنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جارحانہ اور تلخ تنقید سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کے اشتراک کے بغیر اپنی جنگ علیحدہ لڑنا چاہتے ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن احتجاج کے بجائے اپنے اندر وقتی تبدیلی لا کر انتظار کی پالیسی پر گامزن ہوگئے تھے۔ گزشتہ برس ذوالفقارعلی بھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے جب 5 جنوری کو لاہور سے حکومت کے خاتمے کی کہانی شروع کرنے کا اعلان کیا تو اسے محض سیاسی اعلان گردانا گیا۔

قومی اسمبلی میں منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کے قانون سازی کے بلوں کی منظوری کے بعد لگ رہا تھا کہ اسمبلی کے اندر حکومت کے لیے سب اچھا ہے۔ پیپلزپارٹی کا 27 فروری اور پی ڈی ایم کا 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان ہو چکا تھا۔ جسے سیاسی حلقوں میں تقسیم شدہ حکومتی مخالفین کا الگ الگ شو آف پاور قرار دیا جا رہا تھا۔ رواں برس 5 فروری کو اچانک آصف زرداری بلاول بھٹو کے ہمراہ شہباز شریف کے گھر پہنچ گے۔

جس نے سیاست کے بظاہر پرسکون پانیوں میں ’تحریک عدم اعتماد‘ کا ایسا پتھر پھینک دیا جس کی لہروں نے حکومتی اتحاد کے لیے طوفان اٹھا دیا، جس کی زد میں وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں آ گئیں۔ شہباز شریف اور ان کے فرزند کے لیے مرکز اور صوبے میں اقتدار کا امکان پیدا ہو چکا ہے۔

مسلم لیگ ن کے لیے یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آصف زرداری کے سیاسی مشورے اور معاونت نے ان کے لیے اقتدار کا دروازہ کھولا ہو۔

2008 کے انتخابات سے قبل نواز شریف کی جماعت اے پی ڈی ایم کا حصہ بن کر انتخابات کو لاحاصل قرار دے کر بائیکاٹ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔ ایسے میں آصف زرداری نے نواز شریف کو انتخابی عمل میں شرکت پر قائل کیا۔ جس نے بعد میں مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب میں اقتدار کی راہ ہموار کی۔ا س کا تسلسل 2013 کے انتخابات میں مرکز میں بھی حکومت کے حصول میں مددگار ثابت ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے مختلف الخیال سیاسی قوتوں کو حکومتی مراعات سے اپوزیشن کی مشکل بھری صفوں میں لانے کے لیے آصف زرداری کام کر رہے تھے۔

ان کی اس صلاحیت کے پیچھے عملی سیاست کی تفہیم کا وہ درس ہے جو کئی برسوں کے تجربات سے حاصل کیا گیا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں آصف زرداری نے جو وقت جیل کی سلاخوں کے باہر گزارا اس میں ان کا کردار پس منظر میں رہ کر حکمت عملی وضع کرنے کا تھا۔

پیپلز پارٹی کی 2008 میں بننے والی حکومت کے بعد آصف زرداری کی مشہور زمانہ مفاہمت کی سیاست کے جوہر کھلے۔ انہوں نے پرویز مشرف کی چھٹی کروانے کے بعد دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کا راستہ اختیار کیا۔ اس میں بیشتر وہ سیاسی جماعتیں تھیں جن کے ساتھ ماضی میں پیپلز پارٹی کا بدترین سیاسی دشمنی کا طویل پس منظر موجود تھا۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ایک روز چوہدری ظہور الٰہی خاندان پیپلزپارٹی کے وارثوں کے ساتھ شریک اقتدار ہوگا۔

اسی طرح ولی خان کی جماعت اور پیپلز پارٹی کے درمیان پرتشدد مخاصمت کو بھول کر سیاسی یکجائی میں آصف علی زرداری کا تلخیاں بھول کر آگے بڑھنے کا فلسفہ کارفرما تھا۔ ان سب سے بڑھ کر مسلم لیگ ن بالخصوص شریف خاندان اور بھٹو فیملی کے درمیان سیاسی انتقام اور نفرت کے دو دہائیوں پر مشتمل سفر میں مفاہمت کا موڑ بھی انہی کے مرہون منت تھا۔

 

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سے متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی علیحدگی پر بھی آصف زرداری نے کام کیا جو کہ آج سے ایک مہینہ پہلے ناممکنات میں سے لگتا تھا۔ دراصل پاکستان میں حکومتوں کی رخصتی کے ہنگام ہمیشہ سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے جارحانہ انداز، جلوسوں کا غلغلہ اور سڑکوں کو احتجاج سے آباد رکھنے کی روایت رہی ہے۔ لیکن یہ پاکستانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ آصف علی زرداری کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا اور پھر اسے جمہوری طریقے سے ووٹ آئوٹ بھی کر دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس موو کی کامیابی میں دیگر عوامل اور کرداروں کے ساتھ آصف علی زرداری کی سیاسی مہارت اور بصیرت نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آصف علی زرداری نے سب سے یاری ڈال کر ایک مرتبہ پھر خود کو سب سے بھاری ثابت کردیا۔

latest news about Asif Ali Zardari video

Back to top button