مفت کے وکیلوں نے عمران خان کی پی ٹی آئی کا کباڑا کیسے کیا؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار روؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ پر افتاد پڑتی تو وہ مفت کے وکیل حاصل کرنے کی خاطر انہیں اپنی جماعت میں بڑے عہدے دے دیتا یے۔
کچھ ایسا ہی سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی کیا جنہوں نے اڈیالہ جیل جانے کے بعد پی ٹی آئی اپنے ساتھی سیاست دانوں سے چھین کر مفت کیسز کرنے والے وکیلوں کے حوالے کر دی جو ان کی پارٹی کا کباڑا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ دیکھا گیا ہے کہ لاہور سے بڑے بڑے نامور وکیل قومی سطح پر ابھرے اور وکالت میں اپنا نام پیدا کیا۔ ان کے نام اور کام کو دیکھتے ہوئے سیاست دانوں نے ان پر اپنا جال پھینکا۔ وہ بڑے بڑے وکیل وکالت سے سیاست میں گھستے چلے گئے اور بڑے عہدوں تک پہنچے۔
سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاست کو پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں کی ضرورت ہے‘ جو قومی سطح پر اپنا کردار ادا کر سکیں اور پرانی بوسیدہ سیاست اور پرانے سیاسی کرداروں سے ہماری جان چھوٹے۔
مگر یہ سیاستدان بڑے سمجھدار تھے۔ انہیں علم تھا کہ اگر ان بڑے بڑے ناموں والے وکیلوں کو پروفیشنل انداز میں اپنا وکیل کیا تو ان کی کروڑوں کی فیسیں کہاں سے ادا کریں گے اور پھر ان کے آزادانہ نخرے کون برداشت کرے گا‘ لہٰذا وہی پرانا جال پھینکا گیا کہ ان سب کو اپنی پارٹی میں لے آئو۔
انہیں پارٹی کا ممبر بنائو‘ زیادہ ٹیلنٹ ہے تو قومی اسمبلی یا سینیٹ میں لے جائو۔ کسی کو وزیر‘ کسی کو اٹارنی جنرل تو کسی کو گورنر لگا دو۔ یہ سب آپ کے مقدمات بھی مفت لڑیں گے اور آپ کو یس باس بھی کہا کریں گے اور آپ کی ہر کرپشن اور ہر سکینڈل کا عدالت میں اور ٹی وی شوز پر بھرپور دفاع کریں گے۔
وکیلوں کو سیاسی سٹیٹس درکار تھا اور سیاستدانوں کو اپنی کرپشن‘ سکینڈلز اور منی لانڈرنگ کا مفت دفاع کرنے والے قابل افراد چاہئیں تھے۔
روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ یوں دونوں کا کام چل پڑا۔ سیاستدانوں کو مفت وکیل مل گئے اور انہوں نے اپنی مار دھاڑ اور کرپشن جاری رکھی اور نامور وکلا صاحبان انہیں کلین چٹ لے کر دیتے رہے۔ ان سب ملزموں اور مجرموں کو وہ سیاسی قیدی اور نیلسن منڈیلا بنا کر پیش کرتے رہے اور قوم انہیں اپنا ہیرو سمجھتی رہی۔
اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ عوام ان سیاسی سکینڈل زدہ لوگوں کی کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھتے۔ عوام نے خود کو ان لٹیروں میں بانٹ لیا ہے۔ سب کے اپنے اپنے پسندیدہ لٹیرے ہیں۔
لٹیرا ان کی مرضی کا ہو تو پھر اس کے دفاع میں عوام کی منطق اور دلائل سنیں۔ عوام ایسے ایسے جواز ڈھونڈ کر لائیں گے کہ خود کرپشن کرنے والا شرمندہ ہو جائے گا کہ میں تو واقعی بہت معصوم اور نیک انسان ہوں۔
سینیئر صحافی کے مطابق عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وکیل قانون اور آئین کی سرپرستی اور بالادستی کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اعتزاز احسن 2015ء میں سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان کے بہت سے ساتھی جو افتخار چودھری کو بحال کرانے کی تحریک میں شامل تھے‘انہوں نے چیف جسٹس کے بحال ہونے کے بعد اربوں کمائے۔
جی بالکل اعتزاز احسن نے اربوں ہی کہا تھا‘ مجھے سننے یا آپ کو پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں لگی۔ موصوف نے کہا تھا کہ میں بھی چاہتا تو اربوں کما سکتا تھا‘ مجھے بھی پیشکشیں ہوئی تھیں۔
میں بھی کراچی کی مختلف پارٹیوں کے مقدمات پکڑ کر اربوں کی فیس لے کر افتخار چودھری کے سامنے پیش ہو سکتا تھا لیکن میں پیش نہیں ہوا لیکن دیگر ساتھی پیش ہوتے رہے اور اربوں کما گئے۔
اب آپ بتائیں جنہوں نے ‘ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘ والے نعروں سے قوم کو پیچھے لگا کر ججز بحال کرائے تھے‘ آخر پر وہ خود اربوں روپے کما کر پتلی گلی سے نکل گئے۔
صحافی کا کہنا ہے کہ اب دوبارہ پھر وہی گولی دی جا رہی ہے کہ عدالتیں حکومت کی جانب سے دبائو کا شکار ہیں‘ آئینی ترامیم نے عدالتوں کی آزادی ختم کر دی ہے۔
اب پھر سے نئی تحریک چلائی جائے گی۔
لیکن چند برسوں بعد پھر کوئی نیا اعتزاز احسن سینیٹ میں کھڑا ہو کر انکشاف کرے گا کہ اس تحریک کی کامیابی کے بعد کس کس بڑے وکیل نے کس کس کیس میں کتنے ارب روپے کما لیے۔