یوتھیوں کی جانب سے لوگوں کی عزتیں اچھالنے کا سلسلہ کب رکے گا ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ عمران خان کے یوتھیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اہم ترین عہدوں پر فائز شخصیات کی تذلیل کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ مستقبل میں کوئی باعزت شخص کسی ایسے عہدے تک پینچنے کی خواہش نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت محد علی جناح کا پاکستان پٹواریوں اور یوتھیوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے کی بے عزتی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تام اس کام میں عمران خان کی سوشل میڈیا بریگیڈ کو ملکہ حاصل ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بے شک سرکاری عہدوں پر بیٹھے لوگوں کے زیادہ تر فیصلے متنازع ہوتے ہیں، ان سے کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان ہوتا ہے، ہم میں سے کوئی شخص خدا نہیں جس کا ہر فیصلہ حرف آخر اور درست ہو گا، ہم سب انسان ہیں اور انسان اپنے محدود علم اور تھوڑے سے تجربے کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے جن کے غلط ہونے کا سو فیصد امکان ہوتا ہے، لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس شخصیت یا اس عہدے کو بے عزت کر دیں، ہم اسے بے توقیر کر دیں؟ پاکستان میں بدقسمتی سے پچھلے پانچ صدر، پانچ وزیراعظم، پانچ چیف جسٹس اور پانچ آرمی چیف بے توقیر ہو کر ریٹائر ہوئے ہیں، ہم نے کسی کو عزت کے ساتھ ریٹائر ہونے دیا اور نہ رخصت کیا، آپ صدر رفیق احمد تارڑ کو لے لیجیے، صدر بن کر جنرل مشرف نے انہیں ایوان صدر سے اس طرح رخصت کیا تھا کہ وہ دوست سے گاڑی مانگ کر ایوان صدر سے لاہور پہنچے تھے۔

سینئر اینکر پرسن بتاتے ہیں کہ آئین شکن جنرل مشرف کو بھی ذلیل کر کے رخصت کیا گیا اور ان کی باقی زندگی ملک سے باہر گزری جہاں وہ مفروری کے دوران ایک مہلک بیماری کے ہاتھوں لقمہ اجل بن گئے ، اسی طرح صدر آصف علی زرداری ایوان صدر سے نکل کر جیلوں اور عدالتوں میں دھکے کھاتے رہے۔ صدر ممنون حسین بے عزت ہو کر اسلام آباد سے کراچی گئے، سابق وزیر اعظم عمران خان کی ایڈوائس پر غیر قانونی طریقے سے قومی اسمبلی توڑنے والے صدر عارف علوی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہو رہا ہے؟ وزیر اعظم شوکت عزیز فارغ ہوئے تو وہ عدالت اور پولیس کو مطلوب تھے، انہیں فیئر ویل تک نہیں دی گئی، وہ وزیراعظم ہاؤس سے سیدھے ائیرپورٹ گئے اور اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئے، یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ون سے نا اہل ہو کر فارغ ہوئے اور ان کو انہی ججز نے گھر بھیجا جن کو بطور وزیراعظم انہوں نے بحال کیا تھا، نواز شریف کے گلے میں پاناما کا ہار ڈال کر رخصت کیا گیا، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم ہاؤس سے اڈیالہ جیل پہنچے اور انھیں وہاں سزائے موت کے سیل میں رہنا پڑا، عمران خان کو گھسیٹ کر اقتدار سے نکالا گیا اور یہ اس کے بعد آج کل اڈیالہ جیل کی کوٹھڑی میں قید ہیں۔

بشریٰ کی رہائی کے بعد عمران کی رہائی کے لیے بھی ڈیل کی کوشش

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ بھی کیا ہوا؟ پھر جسٹس ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، جسٹس عمر عطاء بندیال اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ جنرل مشرف، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے ساتھ بھی کیا ہوا اور اس وقت موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ سوشل میڈیا پر کیا سلوک ہو رہا ہے؟ یوتھیوں کے چلائے ہوئے ٹرینڈز ثابت کر رہے ہیں کہ ہم نے ملک میں کوئی باعزت عہدہ اور کوئی باعزت شخصیت نہیں چھوڑی، ہم سب کو بے عزت کر رہے ہیں، اب سوال یہ ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کے دو نتائج نکلیں گے، پہلا یہ کہ کوئی عزت دار شخص کوئی اہم عہدہ قبول نہیں کرے گا، دوسرا یہ کہ ملک کے اہم ترین عہدوں پر صرف وہ لوگ فائز ہوں گے جو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بے عزتی برداشت کر سکیں گے۔

سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے، بدقسمتی سے ہم نے قیام پاکستان کے بعد سے اپنے عہدوں اور عہدے داروں کی بے عزتی شروع کر دی تھی، قائد اعظم سے لے کر عمران خان تک اور ایوب خان سے لے کر جنرل باجوہ تک اور حسین شہید سہروردی سے لے کر نواز شریف تک ہم نے کسی شخص کی عزت برقرار نہیں رہنے دی، چناں چہ آج اس کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے ملک پٹواریوں اور یوتھیوں میں تقسیم ہو چکا ہے، پاکستان میں پہلے سنی اور شیعہ اور وہابی اور بریلوی اور مسلم اور غیر مسلم کی فالٹ لائینز تھیں اور اب یہ یوتھیے اور پٹواریوں تک پھیل چکی ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کی بے عزتی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہ حق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، ہمیں اب ہر عہدے پر اپنی مرضی کا عہدیدار چاہیے اور وہ شخص ہمیں فیور کرتے ہوئے قانون دیکھے، آئین اور نہ ہی کوئی قاعدہ بس ہمارا قائد فتح یاب ہونا چاہیے۔ مختصر یہ کہ ہم لوگ جب تک کہ ایک دوسرے کی بے عزتی کو اپنا حق سمجھتے رہیں گے من حیس القوم پاکستانی معاشرہ ترقین نہیں کر پائے گا۔

Back to top button