میری کہانی
تحریر : عطا ء الحق قاسمی
بشکریہ: روزنامہ جنگ
(گزشتہ سے پیوستہ)
میرادوسرا دوست ابراہیم تھا۔ اس نے ایک بار میرے ابا جی کے نام پوسٹ کارڈ بھیجا جس میں اس نے مختلف مٹھائیوں کے نام،اور ان کی قیمت اور آخر میں ٹوٹل درج کیا تھا اورآخر میں ابا جی کو کہا گیا تھاکہ آپ کے بیٹے نے یہ مٹھائیاں ادھار لیکر کھائی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ ایک ہفتے میں ادائیگی کر دے گا مگر اب ایک مہینہ ہونے کو آیا ہے اس نے ادائیگی نہیں کی جناب والا میں غریب آدمی ہوں براہ کرم میری ڈوبی ہوئی رقم واپس دلائیں، ابا جی یہ خط پڑھ کر سخت ناراض ہوئے مگر جب میں نے قسم کھا کر انہیں کہا کہ یہ کمینہ میرا دوست ہے اور اس نے مذاق کیا ہے تو ابا جی کو یقین تو آ گیا مگر کہا تمہاری کمپنی درست نہیں یہی بات ابراہیم کے والدین اسے کہتے تھے۔
ایم اے او کالج میں حصول تعلیم کے دوران جنرل ایوب خان کا مارشل لا لگ چکا تھا پھر وہ وقت بھی آیا جب ایوب صاحب نے الیکشن کا کھڑاک رچایا ۔ان کے مدمقابل مادر ملت فاطمہ جناح تھیں جن کا انتخابی نشان لالٹین تھا۔ انہی دنوں ماڈل ٹائون میں وکیل برادران نے اپنی چھ کنال کی کوٹھی کے وسیع عریض لان میںایوب خان کی حمایت میں جلسہ منعقد کیا ،ان دونوں بھائیوں کی شکلوں میں اتنی مماثلت تھی کہ لوگ انہیں ’’ع غ ‘‘کہتے تھے ۔یہاں ایک وزیر صاحب نے دوران تقریب مادر ملت کے بارے میں نازیبا زبان استعمال کی جس پر میرے جوان خون میں تلاطم پیدا ہوگیا، جس پر میں نے مادر ملت کا زور دارنعرہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی خود ہی زندہ باد کہا ۔ان دنوں ماڈل ٹائون میں عاشق لنگڑے کی بہت ہیبت تھی اس نے کمر کےساتھ پستول باندھی ہوتی تھی اور وہ ایک پائوں سے سائیکل کو پیڈل مارتا ماڈل ٹائون کا چکر کاٹتا تھا مادر ملت زندہ باد کا نعرہ سن کر مجھ اکیلے کی طرف سے وزیر صاحب نے چیخ کر کہا جو میرے جلسے میں گڑبڑ کرے میں اس کی زبان کاٹ دیا کرتا ہوں ،اس کے ساتھ ہی عاشق لنگڑا لاٹھی ٹیکتا میرے پاس آیا اور میرے کان میں مجھے گندی گالیاں دیں اور ساتھ ہی کہا کہ یہاں سے نکل جائو میں تم پر اپنی دوسری گولی ضائع نہیں کروں گا، مجھے اس کی یہ کفایت شعاری اچھی لگی چنانچہ میں نے اس کی دوسری گولی ضائع کرنا پسند نہیں کی اور عاشق لنگڑے کی ہدایت کے مطابق چپکے سے کان لپیٹ کر وہاں سے نکل گیا۔
معذرت خواہ ہوں کہ قلم میرے قابو میں نہیں کالج میں بطور طالب علم گزری زندگی کا ذکر کرتا ہوں تو یاد آ جاتا ہے کہ میں وہاں لیکچرر بھی تو رہا تھا اس کے فوراً بعد عاشق لنگڑا یاد آ جاتا ہے تو اس کا ذکر لے بیٹھا ہوں۔ اب دوبارہ اپنے کالج واپس جا رہا ہوں مجھے اپنا کولیگ نواز خان یاد آ گیا ہے ۔انتہائی بذلہ سنج ،جملے باز چنانچہ وہ جب ہمارے درمیان ہوتا تو کمرہ قہقہوں سے گونجنے لگتا ۔ایک دن وہ کالج آیا تو اس نے ایک اجنبی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا ہوا تھا وہ ایک روز پہلے بیٹھے بٹھائے نابینا ہوگیا تھا، اپنی وفات تک وہ باقاعدگی سے کسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر آتا اور اپنے تمام پیریڈپڑھا کر واپس جاتا مگر اتنے بڑے سانحے کے باوجود اس کی بذلہ سنجی کو کوئی آنچ نہیں آئی تھی اس کے آتے ہی ہمارا کمرہ قہقہوں سے گونج اٹھتا، میں نے زندگی میں ہر طرح کے حالات میں ہنسنا اس سے سیکھا ہے۔
میرے زمانے میں ممتاز کمیونسٹ شاعر عارف عبدالمتین اسلامیات کے لیکچرر تھے بہت جی چاہتا تھا کہ کبھی ان کی کلاس اٹینڈ کروں مگر موقع نہ مل سکا۔ عارف صاحب نہایت سنجیدہ اورشریف النفس تھے، اتنی آہستہ آواز میں بولتے تھے کہ لگتا تھا سرگوشی کر رہے ہیں۔ ایک خبیث گھٹیا شخص نے ایک لطیفہ ان سے منسوب کر رکھا تھا اور یہ کہ عارف صاحب ایک دن اپنے ایک دوست سے ملنے اس کے گھر گئے اس کی بیوی نے دروازہ کھولا عارف صاحب نے اپنی مخصوص سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’چوہدری صاحب گھرپرہیں ‘‘ اس نے بھی سرگوشی کرتے ہوئے کہا ’’نئیں لنگ آئو‘‘ (نہیں آ جائیں) ۔
میرے ایک کولیگ بڑے خوش قسمت تھے انہوں نے پہلی شادی کی دوسال تک بچہ نہیں ہوا ،دوسری کی بچہ نہیں ہوا تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی تک یہی صورتحال تھی ،شنید ہے دس سال پہلے بچہ پیدا ہو ہی گیا ہے، مجھے ایک دن سرراہ ملے بہت کمزور ہو چکے تھے میں نے ہنستے ہوئے کہا ہماری آٹھویں بھابی کب آ رہی ہے یہ سن کر ان کا چہرہ کھل اٹھا اور بولے بس آپ دعا کریں۔ ایم اے او کالج میں میرے ایک کولیگ اور بھی تھے شاعر تھے خاموش طبع تھے اور رج کے کنجوس تھے میں ان کا نام نہیں لکھوں گا ایک دن ہم دوست انہیں بہلا پھسلا کر ایک ریستوران میں لے گئے اور چائے کی فرمائش کی ۔ بیرا تین چار مرتبہ ہماری میز کا چکر لگا کر مایوس ہو کر واپس چلا جاتا ایک بار آرڈر کی امید لئے پھر ہمارے قریب سے گزرا تو ہم میں سے ایک نے بیرے کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے نے ہمارے اس دوست کو اپنی دسترس میں لے لیا اور کہا یہ بیرا اس وقت تک یہاں سے نہیں جائے گا جب تک آپ چائے کا آرڈر نہیں دیں گے، اس پر انہوں نے بیرے کے سامنے بھیک مانگنے کے انداز میں اپنا ہاتھ پھیلایا اور کہا چائے پینی ہے۔
آخر میں ایک عبرتناک واقعہ سن لیجئے یہ واقعہ نہ میں نے پہلے سنا تھا اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی کبھی نہیں سنا ہو گا۔ایک روز میں کالج کے گیٹ میں داخل ہوا گیٹ کے ساتھ ہی سائیکل اسٹینڈ تھا میں نے دیکھا کہ کالج کے پرنسپل اور وائس پرنسپل ایک دوسرے کےساتھ گتھم گتھا ہیں اور ایک دوسرے کو نیچے گرانے کی کوشش کر رہے ہیں بالآخر وائس پرنسپل نے پرنسپل کو ’’لانگڑی‘‘ مار کر نیچے گرا لیا اور ان پر گھونسوں کی بارش کر دی یہ دیکھ کر کچھ اسٹوڈنٹ آگے بڑھے اور بڑی مشکل سے اس مشکل صورتحال پر قابو پایا۔
میری کہانی!
جس دور کا میں ذکر کر رہا ہوں ان دنوں ایک اسٹوڈنٹ کے داخلے کے لئے مجھے سفارشی رقعہ لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ’’ اس لڑکے کے نمبر بہت کم ہیں چنانچہ یہ کالج میں داخلے کا خواہش مند ہے اس کا کہنا ہے کہ انسان کو علم ضرور حاصل کرنا چاہئے خواہ اس کے لئے ایم اے او کالج ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔‘‘ مگر یہ بات بہت پرانی ہے اس کے علاوہ’’ بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں‘‘ والا معاملہ بھی ہے۔ جس کالج کے لڑکے امیدواری کیلئے لیڈ ی میکلگن کالج کے محتاج ہوتےتھے اب وہاں لڑکوںسےزیادہ لڑکیاں ہیں۔(جاری ہے)