خانیوال میں دو ISI افسران کے قتل کی اصل کہانی کیا ہے؟

خانیوال میں ایک دہشت گرد کے ہاتھوں آئی ایس آئی کے دو افسران کا قتل ایک غیر معمولی واقعہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ قاتل ایجنسی کا مخبر بھی تھا۔ اس افسوس ناک واقعے کی تحقیقات کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بظاہر مخبر نے آئی ایس آئی افسران کو کسی خفیہ اطلاع دینے کے کی خاطر بلایا اور پھر انہیں قتل کر دیا۔ واقعے کے وقت دونوں افسران غیر مسلح تھے اور انکے ساتھ سکیورٹی بھی نہیں تھی۔ تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کے لشکر خراسان نے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
دنیا بھر میں خفیہ اداروں کے اہلکار اکثر اپنے ذرائع سے معلومات کے حصول کے لیے معمول کی ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن 3 جنوری 2023 کو اس قسم کی بظاہر ایک معمول کی ملاقات نے وہ رخ اختیار کر لیا جو شاید کسی کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا۔ آئی ایس آئی کے دو سینئر اہلکار ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان ریجن نوید صادق اور انسپکٹر ناصر عباس اپنے ڈرائیور کے ساتھ خانیوال ہائی وے پر واقعہ بسم اللہ ہوٹل لگ بھگ شام چار بجے پہنچے۔ ان افسران کے ڈرائیور کی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق دونوں افسران سے ملاقات کے لیے عمر خان ولد محمد اکرم خان نامی شخص وہاں موٹر سائیکل پر پہنچا۔ بتایا جاتا ہے کہ ملزم کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔ دونوں افسران نے عمر خان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی جسکے بعد تینوں رخصت ہو گئے۔ لیکن جب نوید اور ناصر اپنی گاڑی کی جانب جا رہے تھے تو عمر ان پیچھے سے آیا اور اچانک پستول نکال کر ان پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس نے دونوں افسران کو دس گولیاں ماریں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انہیں قتل ہی کرنا چاہتا تھا۔ ملزم بعد میں موٹر سائیکل پر فرار ہو گیا۔
پاکستان میں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ اس حملے میں مارے جانے والے حساس ادارے کے دونوں سینئر اہلکار شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ یہ دونوں اہلکار کوئی عام افسران نہیں تھے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کے سربراہ نوید صادق ایسی کارروائیوں کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ 16 سال سے زائد عرصے سے آئی ایس آئی میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کو تقریباً دو برس قبل ہی 23 مارچ کے موقع پر ملک دشمن عناصر کے خلاف بہادری اور جرات کے اعتراف میں ایوان صدر میں ستارہ شجاعت سے نوازا گیا تھا جس کی ویڈیو انکی موت کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ سکیورٹی حکام نے بتایا کہ نوید صادق نے پنجاب میں داعش اور القاعدہ کے خلاف کئی بڑی کارروائیاں کی تھیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ دہشت گردوں کیلئے ڈراؤنا خواب تھے۔ انہوں نے خاص طور پر جنوبی پنجاب میں داعش کا نیٹ ورک توڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
نوید صادق نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث القاعدہ اور طالبان نیٹ ورک کا بھی سراغ لگایا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کی کمر توڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا جس کے سربراہ ملک اسحاق ایک مقابلے میں اسکے ساتھیوں مار دیئے گئے تھے۔انکے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ نوید صادق جدید انٹیلی جنس کرافٹ سے لیس ایک بہادر افسر تھے جو عرصے سے ملک دشمن عناصر کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ انڈیپنڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق نوید نے سال 2002 میں سب انسپکٹر کے طور پر پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تاہم 2009 میں اعلیٰ سطح کے امتحان میں شرکت اورکامیابی کے بعد ان کی آئی ایس آئی میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تقرری کی گئی تھی۔
نوید صادق کو خانیوال میں ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا جب وہ جنوبی پنجاب میں تحریک طالبان اور داعش کے نیٹ ورک کے خلاف کام کر رہے تھے۔ تھانہ سی ٹی ڈی ملتان میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور نامزد ملزم عمر خان کی تلاش پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زور وشور سے جاری ہے۔ مفرور عمر نیازی سی ٹی ڈی کی واچ لسٹ میں پہلے سے بتایا جاتا ہے۔
انسپکٹر ناصر عباس نے بھی خفیہ ادارے میں 16 برس خدمات سرانجام دی تھیں۔ ملتان میں تعیناتی کے دوران انہوں نے جنوبی پنجاب میں داعش، القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وجہ سے وہ بھی شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ ناصر عباس بٹ کی شدت پسند تنظیموں میں اپنے ذرائع کے ذریعے گہری پہنچ تھی جنہوں نے اینٹی ٹیررازم کارروائیوں کے دوران بہت مدد دی۔ انکے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں افسر اپنے پیچھے ایک گہرا خلا چھوڑ گئے ہیں جسے پر کرنا کافی مشکل ہوگا۔ نوید صادق کی نماز جنازہ میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی یونیفارم میں شرکت ظاہر کرتی ہے کہ انکی شہادت سے ایجنسی کو کتنا بڑا نقصان ہوا ہے۔