نئی پارٹی پوزیشن
تحریر : کنور دلشاد
بشکریہ: روزنامہ دنیا
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنے خط میں سپیکر قومی اسمبلی نے چیف الیکشن کمشنر کو الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق بھی آگاہ کیا‘ جس کے بعد‘ ان کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں تبدیلی ہوچکی ہے جس کا اطلاق ماضی سے ہوتا ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔ چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ترمیمی الیکشن ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے والا آزاد رکن اب پارٹی تبدیل نہیں کرسکتا۔اس خط کے بعد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے جو نئی پارٹی پوزیشن جاری کی ہے اس میں پاکستان تحریک انصاف کا نام شامل نہیں ہے جبکہ 80 اراکین کو سنی اتحاد کونسل کا رُکن ظاہر کیا گیا ہے۔نئی پارٹی پوزیشن کے بعد قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد مسلم لیگ (ن) کی 110‘ پیپلز پارٹی کی 69‘ متحدہ قومی موومنٹ کی 22‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی پانچ‘ استحکامِ پاکستان پارٹی کی چار اور مسلم لیگ ضیا‘ بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے۔اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل کی 80‘جمعیت علمائے اسلام (ف) کی آٹھ اور آزاد اراکین کی بھی آٹھ نشستیں ہیں۔ اس کے علاوہ پشتونخواملی عوامی پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور مجلس وحدت المسلمین کی بھی ایک ایک نشست ہے۔نئی پارٹی پوزیشن میں جن 80 نشستوں کو سنی اتحاد کونسل کی نشستیں ظاہر کیا گیا ہے‘ اس سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے میں اُن میں سے 39 نشستوں کو پاکستان تحریک انصاف اور 41نشستوں کو آزاد ڈکلیئر کیا گیا تھا۔
قبل ازیں 14 ستمبر کو سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن کی درخواست پر وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں آٹھ فروری کے الیکشن کے لیے پی ٹی آئی کا پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے امیدوار تحریک انصاف کے کامیاب امیدوار ہیں اور یہ کہ الیکشن کمیشن اس فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے۔اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق تین مشاورتی اجلاس بھی کر چکا ہے لیکن یہ تینوں اجلاس بے نتیجہ رہے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والی الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم کا مؤقف ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تاحال زیر غور ہے اور اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ 14 ستمبر کے فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کر سکتا‘ الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا ہے اور الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے کہ تحریک انصاف رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے‘ اس فیصلے میں اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلیم کیا۔دیکھا جائے تو اس عدالتی حکم سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہو چکی ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی دفعات 208اور 209 کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کے ان دفعات کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔
دوسری طرف آئینی ترمیمی پیکیج کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ۔ اتوار کے روز ہونے والی سیاسی گہما گہمی کے بعد آئینی ترامیم کے بل کو وزیراعظم کے دورۂ امریکہ تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو حکمران جماعت کے اپنے رہنما بھی آئینی ترامیم کے بل کو متنازع بناچکے ہیں۔ وزرا کی جانب سے بارہا کہا گیا کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے‘ اگر حکومت کے پاس بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت موجود ہوتی تو آئینی ترامیم کا بل منظور ہو چکا ہوتا۔ مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترامیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس بل کا مسودہ یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اب تک کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت آئین میں ترامیم کے حوالے سے ناکام ہو چکی ہے اور اس ناکامی کی وجہ حکومتی ہوم ورک کا مکمل نہ ہونا ہے۔ سویلین بالادستی کی آڑ میں عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی خاطر آئین میں مجوزہ ترامیم کو اُن اراکینِ اسمبلی سے بھی خفیہ رکھنا جنہوں نے اسے منظور کرنا ہے‘ قابلِ فہم نہیں ہے۔ مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے فیڈریشن بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہ دشمن کا ایجنڈا ہے کہ ملکی وحدت کو کمزور کیا جائے۔
مجوزہ آئینی ترامیم میں ملک میں الگ سے ایک آئینی عدالت کے قیام کی جو تجویز شامل ہے وہ ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ آئینی عدالت کے قیام سے ملک میں متوازی سپریم کورٹ کا تصور اُبھرے گاجس کے اختیارات سپریم کورٹ کے برابر ہوں گے۔اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہی آئینی عدالت قرار دیا جا سکتا ہے۔مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر جو سیاسی گہما گہمی کا منظر دیکھا گیا اُس میں سب سے قابلِ غور میاں نواز شریف کا کردار تھا۔ نواز شریف مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاہور سے اسلام آباد گئے تھے لیکن اجلاس نہ ہونے کی صورت میں وہ واپس لاہور لوٹ گئے۔ نہ انہوں نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرکے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ شنید ہے کہ شہباز شریف کی کوششوں کے باوجود نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ میاں نواز شریف آئینی ترامیم کے حوالے سے شہباز شریف حکومت کی حکمت عملی سے نالاں ہیں اور حمزہ شریف نے بھی نواز شریف کے مؤقف کی تائید کی ہے۔ میاں نواز شریف کا مؤقف ہے کہ سب سے پہلے مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لے کر حکومت کو اپنے نمبر پورے کرنے چاہئیں تھے‘ اس کے بعد ہی ترامیم سے متعلق اجلاس بلانا چاہیے تھا۔
مجوزہ آئینی ترامیم‘ جن کی تعداد 50سے زائد بتائی جاتی ہے‘ میں ایسی شقیں بھی شامل ہیں جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا سکتی ہیں۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ ان ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔غالباً 1975ء میں جب اندراگاندھی نے ایمرجنسی کی آڑ میں بھارتی آئین میں درجنوں ترامیم کا بل ایوانِ زیریں میں پیش کیا تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ایسی آئینی ترامیم کرنے کا قطعی کوئی اختیار نہیں رکھتی اور اگر ایسا ہوا تو سپریم کورٹ ان ترامیم کو کالعدم قرار دیدے گی۔
حکومت جو آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی ہے‘ اس کے قیام کے بعد سپریم کورٹ سول کورٹ کے برابر ہو جائے گی۔ آئین کے آرٹیکل 63 میں ترمیم کے بعد اراکینِ اسمبلی بلا روک ٹوک فلور کراسنگ کرتے رہیں گے جس سے ہارس ٹریڈنگ کا رجحان مزید پختہ ہو گا۔ضروری ہے کہ مجوزہ آئینی ترامیم پر نہ صرف اتحادیوں بلکہ اپوزیشن‘ جس میں قانونی ماہرین بھی شامل ہیں‘ سے بھی مشاورت کی جائے۔ زیر گردش آئینی ترمیمی پیکیج دستورِ پاکستان کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے‘ اور ایوان کی کوئی ایک جماعت باقی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور اتفاقِ رائے کے بغیر یہ ترامیم نہیں کر سکتی۔