چیف جسٹس کا صوابدیدی اختیارات سے گریز کا عندیہ

تحریر:نصرت جاوید۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت

گزشتہ کئی ہفتوں سے دن میں کئی بار انتہائی غریب لوگوں سے گفتگو کا موقعہ مل جاتا ہے۔شدید مہنگائی کے بوجھ سے خود کو لاوارث اور بے بس محسوس کرتے لوگوں کے دلوں پہ چھائی مایوسی مجھے زندگی سے کامل اکتاہٹ کی جانب دھکیل رہی ہے۔ اس کی وجہ سے نازل ہوئی اکتاہٹ کے سبب مجھے عزت مآب چیف جسٹس صاحب کا یہ فیصلہ پسند نہ آیا کہ اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد وہ ایک ایسے موضوع کی بابت سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ بنائیں گے جس کا آج کے حقیقی مسائل سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔مذکورہ سماعت کو ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ بھی اس تناظر میں دل مضطر کو عجب لگا۔ سقوط بغداد سے قبل اس شہر کے بازاروں میں فروعی معاملات کی بابت برپا ہوئے مناظرے بھی یاد آگئے۔
حق بات مگر یہ ہے کہ پیر کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے کے بعد دفتر بھجوادیا تو اپنے کمرے میں نصب ٹی وی آن کردیا۔سپریم کورٹ کی کارروائی کئی گھنٹوں تک بہت انہماک سے دیکھی۔گھر پر آئے اخبارات کے پلندے پر اس کی وجہ سے نظر تک نہ ڈالی۔حتیٰ کہ دوپہر کے کھانے کے لئے فیملی کے ساتھ میز پر بھی نہ بیٹھا۔ فیصلہ سپریم کورٹ کو یہ کرنا تھا کہ سابقہ حکومت نے ایک قانون کے ذریعے ازخود اختیارات پر لگام ڈالنے کی جو کوشش کی ہے اسے آئینی اعتبار سے ”جائز“ تصور کیا جائے یا نہیں۔عمر عطا بندیال صاحب کی قیادت میں کام کرتے سپریم کورٹ نے مذکورہ قانون کو عدلیہ کی آزادی میں مداخلت تصور کیا تھا۔ اس کا اطلاق ایک حکم امتناعی کے ذریعے روک دیا گیا۔
حال ہی میں تعینات ہوئے چیف جسٹس صاحب عدلیہ کی آزادی میں مداخلت والے تصور کے حامی نہیں تھے۔منصب سنبھالتے ہی وہ اپنے من پسند ججوں کا ایک لارجر بنچ بناکر بندیال صاحب کے دئے حکم امتناعی کوختم کرنے کی راہ بناسکتے تھے۔ من مانی کرنے سے مگر انہوں نے گریز کیا۔سپریم کورٹ میں موجود تمام ججوں کو خلق خدا کے سامنے ایک بنچ پر بٹھاکر متفقہ رائے تلاش کرنے کی راہ اپنائی۔ معاشرے کے دیگر شعبوں کی طرح بری طرح تقسیم ہوئے سپریم کورٹ میں اتفاق رائے دریافت کرنے کی یہ خواہش مجھے ہر حوالے سے پرخلوص نظر آئی ہے۔کامل مایوسی کی وجہ سے نازل ہوئی اکتاہٹ کے باوجود میں اس کی ستائش کو مجبور ہوں۔
دوران سماعت سپریم کورٹ کے ججوں کے مابین تقسیم کھل کر عوام کی اکثریت کے سامنے آگئی ہے۔”نظریاتی یکجہتی“ کی بابت فکر مند ہوئے محبان وطن کو اعلیٰ ترین عدالت کے ججوں کے درمیان موجود اختلافات کا منظر عام پر آنا یقینا پسند نہیں آئے گا۔ میں اگرچہ اسے خیر کی صورت دیکھتا ہوں۔جمہوری نظام کی اصل روح مختلف الرائے افراد کے مابین دیانتدارانہ اور دلائل پر مبنی بحث کی بدولت درمیانی اور قابل عمل راہ ڈھونڈنا ہے۔عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی قیادت میں ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے تمام جج ہمارے گھروں،دوکانوں اور دفتروں میں نصب ٹیلی وژن کی سکرینوں پر ایسے ہی عمل میں مصروف نظر آئے ہیں۔پیر کے روز ہوئی سماعت ہماری ریاست وسیاست کے دیگر فیصلہ ساز اداروں کو بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کو مائل کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ کو میسر ازخود اختیار کو افتخار چودھری نے ”عوامی تحریک“ کی بدولت چیف جسٹس کے منصب پر لوٹ کر نہایت بے دردی سے استعمال کیاتھا۔ان کی وجہ سے عوام میں یہ تصور مضبوط تر ہوا کہ ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر قومی اسمبلی وغیرہ میں آنے والے افراد ”جعلی ڈگریوں کے حامل چور اور لٹیرے“ ہیں۔موصوف نے منتخب حکومت کو مفلوج بناکر رکھ دیا تھا۔کابینہ کے اراکین اور سینئر ترین سول سرونٹ اپنے فرائض نبھانے کے بجائے مختلف سوالات کا جواب دینے سپریم کورٹ میں گنہگاروں کی طرح کھڑے تمام دن گزاردیتے تھے۔
افتخار چودھری کو گلہ تھا کہ آصف علی زرداری نے 2008ءکے انتخابات ہوجانے کے بعد انہیں چیف جسٹس کے منصب پر بحال کرنے میں فدویانہ عجلت نہیں دکھائی تھی۔اس کا حساب چکانے وہ آصف علی زرداری کو بدعنوان ثابت کرنے کو تل گئے۔ سابق صدر کے خلاف بہت دنوں سے یہ الزام گردش میں تھا کہ موصوف نے جانے کتنے کروڑ یا ارب ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کروارکھے ہیں۔مذکورہ الزام کی تصدیق یا تردید کے میں ہرگز قابل نہیں۔چودھری صاحب مگر ضد کرنا شروع ہوگئے کہ ان دنوں کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت کو ایک خط لکھ کر تقاضہ کریں کہ اس کے ملک کے بینکوں میں چھپائی آصف علی زرداری کی دولت کا پتہ لگایا جائے۔چودھری صاحب جو تقاضہ کررہے تھے وہ حق گو صحافیوں کی اکثریت کو بہت پسند آیا۔آصف علی زرداری سے اندھی نفرت سے مغلوب ہوئے اذہان نے ایک لمحے کو بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ پاکستان کا منتخب وزیر اعظم اپنے ہی ملک کے صدر کی مبینہ طورپر ناجائز ذرائع سے کمائی دولت اور اس کا سراغ لگانے کے لئے کسی دوسرے ملک کو سرکاری چٹھی کے ذریعے درخواست بھیجے گا تو دنیا پاکستان کے بارے میں کیا سوچے گی۔افتخارچودھری کا تقاضہ محض بغض زرداری میں دل وجان سے سراہا گیا۔مذکورہ تقاضے کی پذیرائی نے ا فتخار چودھری کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دے کر وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کے قابل بنایا۔
پیر کی سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب تواتر سے ریکوڈک کا ذکر کرتے رہے۔افتخار چودھری نے وہاں سے معدنیات کی دریافت پر بھاری بھر کم سرمایہ کاری کو رضا مند کمپنی کے ساتھ ہوئے معاہدے کو کینسل کردیا تھا۔بین الاقوامی کمپنی موصوف کے فیصلے کے خلاف عالمی عدالت میں گئی تو ہم اپنے سپریم کورٹ کے لکھے فیصلے کا دفاع نہ کرپائے۔ہمیں بالآخر اربوں ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم ہوا۔ کئی برسوں کے منت ترلے کے بعد اب ہم اس کمپنی کو رام کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ریکوڈک کے حوالے سے عالمی منڈی میں ہماری ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے لازمی تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ازخود اختیار اتاولے پن سے استعمال کرنے سے روکا جائے۔شہباز حکومت سے ہزاروں اختلافات کے باوجود تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی حکومت نے اس ضمن میں جو قانون بنایا وہ مناسب اور واجب تھا۔اسے مگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ٹھہرادیا گیا۔ پیر کے روز ہوئی سماعت کے دوران جسٹس قاضی بارہا نہایت خلوص وانکساری سے اصرار کرتے رہے کہ وہ ازخوداختیار کو ماضی کی طرح استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ حتمی فیصلہ سنائے بغیر انہوں نے دن بھر کی سماعت کے بعد یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے روبرو آئے مقدمات کی سماعت کے لئے اپنے دوسینئر ججوں کے ساتھ کامل مشاورت کے ساتھ بنچ بنایا کریں گے۔ یوں ”ہم خیال ججوں“ کا تصور ختم ہوجائے گا اور سپریم کورٹ میں کئی مہینوں سے واضح طورپرنظر آتی تقسیم کے دلوں کو گھبرادینے والی فضا کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔

Back to top button