فلم ’’زندگی تماشا‘‘ 300 میں فروخت کیوں ہونے لگی؟

معروف اداکار اور ہدایتکار سرمد کھوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ جب انہیں اپنے واٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا ہے کہ فلم ’’زندگی تماشا‘‘ 300 روپے میں دستیاب ہے تو میں نے کہا کہ یہ تو اب بالکل ہی۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں نہ کہ اخیر ہو گئی ہے۔ میں نے کہا کہ بس!‘سرمد سلطان کھوسٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ وہ آخری کیل تھا جس کے بعد انھوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنی فلم خود انٹرنیٹ پر ریلیز کر دیں گے، ’زندگی تماشا‘ کے فلمساز اور ہدایتکار سرمد کھوسٹ نے چار اگست کو اپنی فلم انٹرنیٹ پر ریلیز کی۔ سنیما گھروں میں فلم کی ریلیز پر پابندی اور پابندی ہٹوانے کی طویل جدوجہد سے لے کر ’بڑی سکرین‘ کے لیے بنائی جانے والی فلم آن لائن ریلیز کرنے کے فیصلے تک، انھوں نے بی بی سی سے اس طویل سفر کے بارے میں گفتگو کی ہے۔یہ ایک غیر روایتی طریقے کی ریلیز تھی اس لیے ممکن نہیں تھا کہ ان سے سوالات بھی غیر روایتی نہ کیے جائیں، زندگی تماشا کا ورلڈ پریمیئر اکتوبر 2019 میں کیا گیا اور بڑی چاہت کے ساتھ اسے 24 جنوری 2020 کو پاکستان بھر میں ریلیز کرنے کی تیاریاں کی گئی تھیں۔ مگر یہ فلم دیکھنے کے لیے پاکستانیوں کو قریب چار سال کا انتظار کرنا پڑا۔سرمد نے بتایا کہ انھوں نے ایک فنڈ ریزر کے لیے اس فلم کو آن لائن پلیٹ فارم ’ویمو‘ پر ریلیز کیا ’جس کے بعد ایک دم سے کہیں آن لائن ایک پرنٹ نظر آنے لگ گیا۔ یعنی زندگی تماشا کا پائیریٹڈ ورژن ٹورنٹس، یوٹیوب حتیٰ کہ واٹس ایپ گروپس پر بھی ملنے لگا۔ سرمد کے مطابق یہ 4 اگست 2023 یعنی فلم کی خود سے کی گئی ریلیز سے تقریباً ڈیڈھ دو ہفتوں پہلے ہونے والے واقعات ہیں۔ مگر ان کی اجازت اور مرضی کے بغیر ہونے والی یہ ریلیز سرمد کو منظور نہ تھی۔ سرمد کے مطابق زندگی تماشا کو بعض صوبوں میں ریلیز کرنے کی اجازت مل گئی تھی مگر انھوں نے بالآخر ایسا نہ کرنے پر اکتفا کیا۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اسے ان سنیما گھروں میں ریلیز کریں گے تو انھوں نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’نہیں! اب نہیں کرو گا۔ اب میری ضد سمجھ لیجیے، چِڑھ سمجھ لیجئے، زندگی تماشا آن لائن ریلیز کرتے ہوئے سرمد نے لوگوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ دیکھ کر بتائیں کہ اس میں کون سی ایسی بات ہے جس کی بنا پر اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’وہ جو ایک، وہ کیا کہتے ہیں، بوتل میں جن جو بن گیا تھا نہ یہ کہ وہ لوگ بھی (کہتے) کہ ہے کیا ایسا اس فلم میں۔۔۔ تو میں نے صاف نیت سے یہ فلم بنائی تھی۔ مجھے یہ ضرور پتا تھا کہ میری فلم میں کوئی ایسی گڑبڑ نہیں ہے جو اس سے منسوب کی جا رہی ہے، اس لیے مجھے لگا کہ بس، یہ سوچ کہ اے لؤفر، جاؤ موجاں کرو ہن! ہن ویکھ لؤ فر! ہن تسی لبو! ہن لبو ادے اچ توانوں کی چائی دا اے‘۔سرمد کا کہنا ہے کہ ان کی فلم کی کہانی اور اس کے سینز کسی بھی عام انسان کی روزمرہ کی حقیقی زندگی کے واقعات کی عکاسی کرتے ہیں اور دیکھنے والوں کے لیے ’جانے پہچانے‘ مناظر ہیں۔گھر کا سین ہو کہ لوگ رضائیوں میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔ یا ایسا سین کہ کوئی بزرگ شادی پر ڈانس شروع کر دیں اور آپ کو ہنسی نہ آئے، سرمد نے بتایا کہ پنجاب کی سکریننگ میں 18 سے اوپر والوں کے لیے کوئی ’کٹ‘ نہیں کیے گئے اور ’فیڈرل والی‘ سکریننگ کے بعد کچھ جگہ تبدیلیاں بتائی گئیں جو سرمد نے اپنی فلم میں کیں۔سرمد نے بتایا کہ ان کے کچھ دوستوں نے ان سے کہا کہ ’اب تمہاری سٹیٹمنٹ یہ ہونی چاہیے کہ مجھے اب یہ (ستارہ امتیاز) نہیں چاہیے۔ میں نے کہا نہیں! ڈرامہ میں ابھی بھی نہیں کروں گا۔’ہاں! لیکن جب میں نے شکریہ کا نوٹ لکھا تو میں نے کہا میں کسی اور کا شکریہ ادا نہیں کر رہا۔
اپنے ملک کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔ بس!‘