پاکستان میں معلومات تک رسائی میں سول بیوروکریسی بڑی رکاوٹ

1923 میں انگریز حکمرانوں نے ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ ‘کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا اور شہریوں کو حکومتی معلومات سے محروم کرنے کےلیے ایک قانونی راستہ اختیار کیا گیا۔ اس قانون کے تحت ہماری بیوروکریسی کئی برسو ں سے خود کو مقدس گائے سمجھ رہی ہے اور ان سے سوال کرنے کا حق کسی بھی شہری کو حاصل نہیں ہے، تاہم 2013میں جب پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی تو ایک ایسا قانون پیش کیا جس نے پہلی مرتبہ صوبے کی بیوروکریسی کو عوام کے سامنے جواب دہ بنا دیا۔
صوبائی حکومت نے 2013میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ منظور کیا، اس قانون میں یہ شق شامل کی گئی کہ ہر وہ شخص جو پاکستانی شناختی کارڈ کا حامل ہے چاہے وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتا ہو، خیبر پختونخوا حکومت سے معلومات حاصل کرسکتا ہے او صوبائی حکومت کا متعلقہ ادارہ کم از کم 10اور زیادہ سے زیادہ 20روز کے اندر جواب دینے کا پابند ہوگا۔
اسی طرح سندھ اسمبلی میں سنہ 2016 میں معلومات تک رسائی اور شفافیت کا بل پیش کیا گیا تھا جو مارچ 2017 کو منظور ہونے کے بعد قانون بن گیا اور اپریل میں اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ اس قانون کے تحت 100 روز میں سندھ انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں آنا تھا تاہم اس میں تاخیر ہوئی۔ سندھ انفارمیشن کمیشن کے کمشنر سکندر ہلیو کا کہنا ہے کہ جب کمیشن تشکیل دیا گیا تو ایک ہفتے کے بعد نگران حکومت آ گئی اور اس دوران اس معاملے پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی مگر فائلز آگے پیچھے ہی ہوتی رہیں۔
بیورو کریسی کا رکاوٹ میں اہم کردار ہے۔ اس میں معلومات نہ دینے والا عنصر بھی شامل تھا۔ کمشنروں کی تعیناتی ہوگئی لیکن ان کے دائرہ اختیار منظور نہیں ہوئے اور بیورو کریسی نے اعتراضات لگا دیے کہ پہلے سندھ کابینہ سے ضابطہ کار منظور کروائیں اورجب یہ بھی ہوگیا تو پھر بھی کاغذات آگے پیچھے ہوتے رہے۔
قانون کے مطابق سندھ انفارمیشن کمیشن کا سربراہ ریٹائرڈ جج یا ہائی کورٹ کا جج بننے کی قابلیت رکھنے والا شخص ہو گا جب کہ دو اراکین میں ایک گریڈ 20 کا سرکاری افسر ہوگا، جس کی عمر 65 برس سے زائد نہ ہو، اور ایک سول سوسائٹی کا نمائندہ ہوگا۔ حال ہی میں سندھ انفارمیشن کمیشن کو ایک دفتر فراہم کیا گیا ہے، جہاں محدود اسٹاف تعینات ہے۔ کمشنر سکندر ہلیو نے بتایا کہ ان کے محکمے کے پاس بجٹ دستیاب نہیں جس کی وجہ سے وہ اسٹاف بھرتی نہیں کرسکتے۔ عارضی انتظام کے تحت محکمہ اطلاعات نے دو اسسٹنٹس کی خدمات کمیشن کو دی گئی ہیں جو فی الحال کام کر رہے ہیں۔
سندھ کے معلومات تک رسائی کے قانون کے مطابق تمام محکموں میں پبلک انفارمیشن افسران تعینات کیے جائیں گے۔ شہری انہیں درخواستیں جمع کروائیں گے اور اگر ان افسران کی تعیناتی نہیں ہوئی تو محکمے کے سربراہ کو درخواست بھیجی جائے گی۔
کمشنر سکندر ہلیو کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شہری ایک سادہ کاغذ پر درخواست میں اپنے نام، پتے اور شناختی کارڈ نمبر کے ساتھ متعلقہ محکمے سے مطلوبہ معلومات کی تفصیلات مانگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری محکموں نے ابھی تک پبلک انفارمیشن افسران تعینات نہیں کیے گئے اور ان کے پاس معلومات کی عدم فراہمی پر 18، 20 شکایت آئی ہیں جو متعلقہ محکموں کو بھیجی جا چکی ہیں، لیکن ادارے جواب نہیں دیتے۔ ’شاید وہ خود کو اس کا پابند نہیں سمجھتے لہٰذا ہمیں ان افسران کی تربیت کرنی ہے کہ قانون کے مطابق آپ معلومات دینے کے پابند ہیں۔ سندھ میں سنہ 2006 میں بھی معلومات تک رسائی کا قانون منظور کیا گیا تھا لیکن اس کے قواعد و ضوابط نہیں بنائے گئے تھے اور 10 برس بعد یعنی سنہ 2016 میں اسی قانون کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک نیا بل پیش کیا گیا۔
یاد رہے کہ صوبہ بلوچستان میں معلومات تک رسائی کا سنہ 2005 کا قانون نافذ ہے جب کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں یہ قانون سنہ 2013 میں نافذ کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے معلومات تک رسائی کا قانون سنہ 2017 کو پارلیمان سے منظور کروایا تھا۔ بلوچستان میں متعلقہ معلومات کے حصول کےلیے نیشنل بینک میں 50 روپے جمع کروانے ہوتے ہیں، جس کے بعد ابتدائی 10 صفحات فراہم کیے جاتے ہیں اور اضافی صفحات کےلیے فی صفحہ پانچ روپے فیس ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ابتدائی صفحات کے لیے کوئی فیس نہیں۔ سندھ میں اس حوالے سے کوئی فیس نہیں تاہم پوسٹ کے اخراجات درخواست گزار کو برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے انفارمیشن کمیشن کے کمشنر زاہد عبداللہ نے بتایا کہ انہیں آج تک 265 شکایات موصول ہوئی ہیں جن میں اداروں کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنے کی شکایت کی گئی ہے۔ یہ درخواستیں نیشنل اسمبلی، سینیٹ، نادرا، نیشنل بینک آف پاکستان، کنٹونمنٹ بورڈ اور ریلوے کے بارے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان محکموں کو نوٹسز جاری کیے اور سماعت کی جس کے بعد 130 درخواست گزاروں کو متعلقہ معلومات فراہم کر دی گئیں۔
وفاقی کمیشن کے قیام کو ایک سال ہونے کے باوجود ہمیں اسٹاف فراہم نہیں کیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے سمری بھیج دی ہے لیکن وزارت خزانہ آسامیوں کی منظوری نہیں دے رہا۔ ہمارے پاس 30 پوسٹوں کی گنجائش ہے۔ سیاسی قیادت کی خواہش تھی اسی لیے یہ قانون بنایا گیا لیکن بیورو کریسی کی رکاوٹیں ہیں، وہ فیصلہ لینے میں بڑی دیر لگاتے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان کی طرح وفاقی محکموں کی جانب سے بھی پبلک انفارمیشن افسران تعینات نہیں کیے گئے ہیں۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی معلومات تک رسائی کی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں درخواست کے نمونے، طریقہ کار اور رہنمائی سمیت متعلقہ قانون اور معلومات دستیاب ہے۔ تاہم وفاقی حکومت، سندھ اور بلوچستان کا ویب پورٹل نہیں ہے جب کہ بلوچستان حکومت نے کمیشن کے بجائے محتسب اعلیٰ کو کمپلینٹ اتھارٹی بنایا ہے۔
سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلیپمنٹ انیشیئیٹو‘کے عامر اعجاز کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کے پاس قانون موجود ہے لیکن اس پر عملدرآمد بہت سست روی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ابھی تک سنہ 2005 کا ہی قانون چل رہا ہے جو معلومات تک محدود رسائی دیتا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے یہ ہی مطالبہ رہا ہے کہ اس قانون کو منسوخ کر کے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرح پروگریسو قانون بنانا چاہیے۔ انفارمیشن کمیشن بنا تو دیے ہیں لیکن مطلوبہ وسائل فراہم نہیں کیے گئے ہیں۔ اسی لیے یہ کمیشن نہ تو پبلک انفارمیشن افسران کی تربیت کر پاتے ہیں اور نہ ہی بڑے پیمانے پر کوئی مہم چلا پاتے ہیں۔ سرکاری افسران کی تربیت معلومات کو چھپانے والی ہوتی ہے۔ کمیشن اور سول سوسائٹی کو ان مشکلات کا بھی سامنا ہے۔
عامر اعجاز کا کہنا ہے کہ پنجاب کے انفارمیشن کمیشن میں 46 آسامیاں مختص ہیں لیکن اس وقت صرف پانچ لوگ کام کر رہے ہیں، گزشتہ مالی سال میں عوام کی اس حوالے سے آگاہی کےلیے کچھ بجٹ دیا گیا تھا لیکن اگلے سال وہ بھی روک دیا گیا۔
یہ درست بات ہے کہ پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمشن کی صورتحال سب سے بہتر خیبر پختونخوا میں ہے لیکن یہ اندھوں میں کانا راجہ والی بات ہے۔ اگر اس کو الگ دیکھیں گے تو وہاں بھی کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے، وہاں بھی سرکاری اداروں کا جواب بہت سست ہے۔کمیشن کے قیام میں تاخیر اور سہولیات کے فقدان سے شہریوں کے معلومات تک رسائی کا حق بھی متاثر ہو رہا ہے۔ عامر اعجاز کا کہنا ہے کہ کمیشن کو 60 دن میں فیصلے لینے ہیں لیکن پنجاب میں بہت سارے ایسے کیسز ہیں جن میں دو، دو سال بھی لگ گئے لیکن کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کر پایا کیونکہ سرکاری ادارے جواب ہی نہیں دیتے۔ معلومات کی ایک مدت معیاد ہوتی ہے جو معلومات مجھے آج چاہیے اگر وہ دو سال کے بعد مہیا کی جائے گی تو وہ میرے کام کی نہیں ہے۔ جو فیصلہ 60 دن میں ہونا ہو اگر وہ 500 دن میں ہو گا تو لوگوں کی دلچسپی کم ہو جائے گی۔