کیا افغانستان میں ہونے والے ظلم پر جشن منانا بنتا ہے؟


معروف کالم نگار اور لکھاری یاسر پیرزادہ نے کہا ہے کہ دنیا میں اس شخص یا قوم سے زیادہ مجبور اور مظلوم کوئی نہیں ہوتا جس کے پاس آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع ختم ہو جائیں۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں ظلم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے، لہذا باقی کسی کا تو پتا نہیں، کم از کم میں اس پر جشن نہیں منا سکتا۔
اپنی تازہ تحریر میں یاسر پیرزادہ لکھتے ہیں کہ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں افغان جنگ کے خاتمے کا جشن منائوں یا کم از کم امریکہ کی شکست پر ہی بھنگڑا ڈال لوں مگر جونہی میں بھنگڑا ڈالنے کا ارادہ کرتا ہوں میری نظروں کے سامنے وہ مناظر گھومنے لگتے ہیں جن میں لوگ جہازوں سے لٹک کر بھاگنے کی کوشش میں ہلاک ہو رہے ہیں، برقع پوش عورتیں اپنے معصوم بچوں کے ساتھ در بدر ہیں جن کوئی پرسان حال نہیں اور اپنے مستقبل سے بے خبر لوگ جہاز میں مرغیوں کی طرح بیٹھے ہیں تاکہ انہیں افغانستان سے کسی دوسرے ملک منتقل کیا جا سکے۔
مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ جو کچھ ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے وہ اس تکلیف اور اذیت کا عشر عشیر بھی نہیں جس سے افغان عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے گزر رہے ہیں اور مستقبل قریب میں بھی ان کے حالات تبدیل ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ افغانستان کو ایک فعال، مربوط اور منظم حکومت کی ضرورت ہے جو جدید انداز میں امور مملکت چلانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ بظاہر طالبان کی حکومت میں یہ تینوں خصوصیات ہوں گی، آخر انہوں نے امریکہ کو شکست دی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ اس بات کا دو مثالوں سے اندازہ لگا لیں۔ کابل پر قبضے کے بعد طالبان افغانستان کے مرکزی بنک میں گئے اور وہاں موجود ’چوکیدار‘ سے کہا کہ 9 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ان کے حوالے کیے جائیں۔ بنک والوں نے طالبان کو بتایا کہ ان کے پاس نقد رقم نہیں ہوتی، زر مبادلہ کے یہ ذخائر مختلف اثاثوں کی شکل میں فیڈرل بنک نیویارک کے پاس ہیں اور یہ اثاثے امریکی صدر پہلے ہی منجمد کر چکا ہے۔ افغانستان بنک کے گورنر کو یہ بات مختلف ٹویٹس سے واضح کرنی پڑی جو پہلے ہی ملک چھوڑ کر جا چکا تھا۔
یہ واقعہ روزنامہ ڈان کے لکھاری خرم حسین نے اپنے کالم میں لکھا ہے۔
یاسر پیرزادہ دوسری مثال میڈیا کی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے ایک چھوٹا سا ویڈیو کلپ ٹویٹر پر دیکھا جس میں ایک ٹی وی اینکر طالبان کا انٹرویو کر رہا ہے اور اس کے ارد گرد مسلح جنگجو رائفلیں تانے کھڑے ہیں۔ کسی ستم ظریف نے اس پر اچھا تبصرہ کیا کہ یہ طالبان کا آزاد میڈیا کا تصور ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ طالبان افغانستان کو باقاعدہ ایک ایسے ملک کی طرح چلائیں گے جس میں ٹیکس کا نظام ہو گا، تنخواہیں بنک سے ادا کی جائیں گی، سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر کے لیے انجنئیرز بھرتی کیے جائیں گے اور ملک میں امن امان کے لیے تربیت یافتہ پولیس ہوگی نہ کہ طالب جو خود ہی موقع پر جج بن کر سزا سنا دیتا ہے تو میری نیک تمنائیں ایسے خوش فہم لوگوں کے ساتھ ہیں۔
یاسر کے بقول فی الحال حالات یہ ہیں کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں طالبان کے قبضے کو اور کابل میں بم دھماکے بھی شروع ہو گئے ہیں، جواب میں امریکہ نے ڈرون حملے بھی داغ دیے ہیں، دہشت گردوں کا تو پتا نہیں البتہ بچے، عورتیں اور بے گناہ لوگ ضرور مارے گئے ہیں۔ لیکن جیسے وہ انگریزی میں کہتے ہیں کہ who cares، افغانستان پر چاہے جتنے مرضی بم برساؤ، مہذب دنیا کی نظر میں یہ کوئی سچ مچ کا ملک تو ہے نہیں جہاں انسان بستے ہوں۔ پاکستان پر بھی اس کے اثرات آنے شروع ہو گئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ پندرہ روز میں دہشت گردی کے تیرہ واقعات ہو چکے ہیں جن میں تیرہ سویلین اور سات سیکورٹی کے جوان شہید جبکہ گیارہ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ پچھلے سال انہی پندرہ دنوں میں چھ واقعات ہوئے تھے جن میں تین سویلین اور تین فوجی جوان شہید ہوئے تھے جبکہ تین دہشت گرد مارے گئے تھے۔ ان حالات میں بندہ کس بات کا جشن منائے!
یاسر کے مطابق میرے کچھ دوست کہتے ہیں کہ کم از کم اس بات کا ہی جشن منا لو کہ افغان طالبان نے امریکہ جیسی سپر پاور کو شکست دی ہے اور اب وہ ایک آئیڈیل اسلامی مملکت بھی بنانے جا رہے ہیں۔ لیکن میری رائے میں اس بات کا اور کیا جواب دیا جا سکتا ہے کہ آج کی تاریخ میں عوام سے ریفرنڈم کروا کے پوچھ لیں کہ کیا یہ ممکن ہے اور کیا طالبان افغانستان جیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ شاید ہی کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ ہمارا ملک ویسا بن جائے جیسا کہ طالبان افغانستان کو بنانا چاہتے ہیں۔
یاسر پیرزادہ کہتے ہیں کہ امریکی اپنے افغانستان والے مس ایڈونچر میں کے بعد لمبی تان کر سو رہے ہیں، انہیں دنیا کی گالیوں کی پروا ہے اور نہ کسی کا ڈر خوف۔
دوسری طرف افغان عوام ہیں جو روزانہ اس خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں کہ نہ جانے آنے والا دن ان کے لیے کیسا ہوگا! یہ خوف بے حد اذیت ناک ہوتا ہے، دنیا میں اس شخص یا قوم سے زیادہ مجبور اور مظلوم کوئی نہیں ہوتا جس کے پاس آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع ختم ہو جائیں۔ ہمارے ہمسائے افغانستان میں ظلم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے، لہازا باقی کسی کا تو پتا نہیں، کم از کم میں اس پر جشن نہیں منا سکتا۔

Back to top button