اس وقت فوج کے لئے بڑا چیلنج عمران خان ہے یا عمرانڈوز ججز؟
پاکستان میں سیاسی صورتحال سے پیدا ہونے والی بے یقینی سیاسی جماعتوں کے دائرہ کار سے نکل کر بادی النظر میں اداروں میں پھیلتی اور سمٹتی جارہی ہے۔جہاں ایک طرف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے آمنے سامنے آنے کا تاثر ہر گزرتے دن کے ساتھ پختہ ہوتا جا رہا ہے وہیں ملکی اعلیٰ عدالتیں سیاسی معاملات کے بوجھ تلے دبتے ہوئے دیگر قانونی معاملات اور اپنے فرائض کے دیگر متعلقہ امور میں کم مصروف نظر آتی ہیں۔عدالتی ریکارڈ کے مطابق غیر سیاسی اور عوامی مسائل پر مبنی زیرسماعت مقدمات کی تعداد ہزاروں سے بھی کہیں تجاوز کرچکی۔ جہاں ایک طرف ادارے باہمی صف آراء ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری جانب سپریم کورٹ میں بھی گروپنگ کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا عمران خان کے مقدمے کی لائیو سماعت بارے اختلافی نوٹ اس کی روشن مثال ہے جس میں جسٹس اطہر من اللہ نے کھل کر نہ صرف عمران خان کی ستائش کی بلکہ انھیں بھٹو جیسا بڑا لیڈر بھی قرار دے دیا۔
دوسری جانب سینئر صحافی رضا رومی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اس وقت طاقت کا سب سے بڑا مرکز بن چکی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم کیس میں اپنے اختلافی نوٹ میں جس طرح عمران خان کے لاکھوں سپورٹرز کا ذکر کیا ججز کو یہ زیب نہیں دیتا۔ عدالتیں اگر ملزمان کے فالوورز سے متاثر ہونے لگیں، مقبولیت کو دیکھ کر فیصلے دینے لگیں تو انصاف نہیں ہو سکے گا۔ رضا رومی کے مطابق موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ انہوں نے عمران خان کے خلاف 9 مئی کا بیانیہ بنایا مگر عوام نے 8 فروری کو سب سے زیادہ ووٹ انہیں دے کر یہ بیانیہ اڑا دیا۔ اس کے بعد پے در پے کیسز بنائے گئے مگر عدلیہ نے سارے کیسز اٹھا کر پھینک دیے۔ تحریک انصاف کے مقابلے میں بیانیے کی جنگ اسٹیبلشمنٹ ہار چکی ہے۔
اسحٰق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیر اعظم تعیناتی کے خلاف درخواست، کابینہ ڈویژن نے جواب جمع کرادیا
تاہم رضا رومی کا کہنا ہے کہ عمران خان جیل سے باہر آ بھی جائیں تو کوئی بہت بڑا خطرہ نہیں پیدا کر سکیں گے کیونکہ اب جنرلز ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ وہ جلسے کر لیں گے جو وہ پہلے کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کو جیل میں رکھنا ناقص حکمت عملی ہے۔ پی ٹی آئی کو اب ججوں، جرنیلوں اور اینکرز کی سہولت کاری سے نکل کر ایک باقاعدہ سیاسی جماعت بن کر دکھانا ہو گا۔ رصا رومی کے بقول اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج عمران خان ہیں اور نا ہی تحریک انصاف، بلکہ عدالتیں سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو کچھ عرصہ جیل میں رکھ کر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا چاہتی ہے مگر اس کو سپریم کورٹ کے ججز اور خصوصاً اسلام آباد ہائی کورٹ چیلنج کر رہی ہے۔ رضا رومی کے مطابق اگر ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لاء لگتا ہے تو عالمی قوتوں اور آئی ایم ایف کو زیادہ اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے سارے معاملات پاک فوج کے ساتھ طے کر رہے ہیں۔