پی ٹی آئی کا 24 نومبر کے احتجاج کو 126 دن کے دھرنے میں بدلنے کا منصوبہ
تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے 24 نومبر کو اسلام اباد میں احتجاج کی جو کال دی گئی ہے اس کا اصل مقصد 126 دن جیسا دھرنا دینا ہے تاکہ حکومت کو دباؤ میں لایا جا سکے۔ تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت سمجھتی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں ایک بڑا اور موئثر احتجاج کرنا بھی ممکن نظر نہیں آتا، دھرنا دینا تو دور کی بات ہے۔ اسی لیے پارٹی کے تمام مرکزی قائدین نے عمران خان کو احتجاج کی کال دینے سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ڈٹے رہے اور بالاخر اپنی بہن علیمہ خان کے ذریعے 24 نومبر کو اسلام اباد میں احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔
علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے مستقل مارشل لا کے زیر سایہ رہنا ہے یا آزادی سے جینا ہے۔ اسی لیے 24 نومبر کو عمران خان نے اسلام آباد پہنچنے کی کال دے دی ہے اور اپنے ایک ایک ورکر کو پیغام دیا ہے کہ وہ لازمی پہنچے۔ تحریکِ انصاف نے لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے چار مطالبات پر اصرار کرنے کا فیصلہ کیا ہیں۔ ان مطالبات میں ’26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ شامل ہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی مطالبہ پورا نہیں ہوگا اور تحریک انصاف کی احتجاج کی کال بھی ناکام ہو جائے گا، ایسے میں عمران خان کو پہلے سے بھی ذیادہ سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی ائی ورکرز پہلے ہی مایوس ہو چکے ہیں اور اسی لیے وہ پچھلی چار احتجاجی کالز پر باہر نکلنے سے انکاری رہے۔
تاہم عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پارٹی ورکرز کو متحرک کرنے کےلیے مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے تاکہ 24 نومبر کے متوقع احتجاج کو باعزت بنایا جا سکے۔ عمران کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے جانے والے پیغام میں کہا گیا ہے کہ: ’میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں اور مطالبات کی منظوری تک گھروں کو واپس نہ جائیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے ۔ پچھلے دو ماہ میں تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی ایسی چار کالز دی جا چکی ہیں جو مسلسل ناکام رہیں حالانکہ وزیر اعلی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈا پور نے انہیں کامیاب بنانے کےلیے صوبائی حکومت کے تمام تر وسائل استعمال کیے تھے۔
ان دھرنوں میں 2014 کا وہ دھرنا بھی شامل ہے جو تقریباً 126 دن جاری رہا تھا لیکن اس وقت حالات مختلف تھے، عمران خان آزاد تھے اور ان کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع دعوی کر رہے ہیں کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ اس مرتبہ لاکھوں لوگ اسلام اباد کا رخ کریں اور سال 2014 کی طرح ڈی چوک میں ویسا دھرنا دے ڈالیں جو 126 دن جاری رہا تھا۔ تاہم پارٹی کے اندر سے ہی زیادہ تر قائدین کا یہ خیال ہے کہ ایسا کوئی احتجاج یا دھرنا دیوانے کا خواب ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے آخری مرتبہ خوئہ بڑا لانگ مارچ نومبر 2022 میں تب کیا تھا جب عمران خان آزاد تھے۔ اس لانگ مارچ کے دوران عمران وزیر آباد میں ایک حملے میں زخمی بھی ہو گے تھے۔ تب پی ٹی آئی کارکنان اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو ہوئے تھے لیکن انتظامیہ نے انھیں چند گھنٹوں سے زیادہ وہاں ٹِکنے نہیں دیا تھا۔
اس کے بعد اگست 2023 میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری اور 2024 میں الیکشن کے انعقاد کے بعد بھی پی ٹی آئی نے کئی مرتبہ احتجاج کیا جس کے دوران درجنوں پارٹی رہنماؤں اور سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ ہر احتجاج کے موقع پر راولپنڈی اور خصوصاً اسلام آباد میں کاروبارِ زندگی کبھی جزوی اور اور کبھی مکمل طور پر بند رہا لیکن کوئی بھی احتجاج اتنا موثر نہیں تھا کہ حکومت پر دباؤ ڈال سکے۔ پچھلی چار احتجاجی کالز کے نتیجے میں پی ٹی آئی کارکنان ڈی چوک تک پہنچنے میں ناکام رہے جہاں عمران خان نے 2014 میں 126 روز تک دھرنا دیا تھا۔
پی ٹی ائی کی جانب سے آخری احتجاج اکتوبر کے آغاز میں کیا گیا تھا جس کا ڈراپ سین تب ہوا جب اسلام آباد پہنچنے پر احتجاج کی سربراہی کرنے والے علی امین گنڈاپور احتجاج چھوڑ کر خیبر پختون خوا ہاؤس چلے گئے جس کے بعد ان کے لاپتہ ہونے کی خبر گردش کرنے لگی۔ تاہم ایک روز بعد انھیں خیبرپختونخوا اسمبلی میں خطاب کرتے دیکھا گیا تھا۔ ایسے میں لوگوں کے ذہنوں میں سوال ہے کہ 24 نومبر کے لانگ مارچ کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ ماضی کے احتجاج سے کتنا مختلف ہو گا؟
علی امین گنڈا پور جیسے بڑھک باز رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ ماضی کے برعکس اس بار لانگ مارچ کے ذریعے اپنے تمام مطالبات پورے کروا لیں گے۔ وزیرِ اعلیٰ گنڈاپور نے اعلان کیا یے کہ ’اس بار ہماری اسلام آباد سے واپسی تب تک نہیں ہو گی جب تک ہمارے تمام مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے مرکزی قائد رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح عمران خان کی 24 نومبر کے احتجاج کی کال بھی بری طرح ناکام ہوگی اور لوگ اس مرتبہ بھی انہیں ٹھینگا دکھائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ احتجاجی کال پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچنے اور ترقی کا عمل روکنے کی ایک اور کوشش ہے جو ماضی کی کوششوں کی طرح ناکام رہے گیی۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے عمران نے اپنی بےوقوفی سے اپنی حکومت ختم کروائی اور اب وہ اپنی پارٹی کو ختم کروانے پر تُلے ہوئے ہیں۔