پاکستان نے چینیوں کی سکیورٹی چین کو دینے سے کیوں انکار کیا؟

چین کی جانب سے پاکستان میں سی پیک پراجیکٹس پر کام کرنے والے اپنے ورکرز اور انجینئیرز کی سیکیورٹی خود چینی فوج کو دینے کا مطالبہ اس لیے رد کیا گیا یے کہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان آرمی اپنی سرزمین پر غیر ملکیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی یے۔

یاد رہے کہ پاک فوج کے 50 ہزار سے زائد جوان سی پیک پروجیکٹس پر کام کرنے والے چینی بشندوں کی سیکیورٹی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

چینی باشندوں کی سکیورٹی پر50ہزار جوان تعینات ہیں

یاد رہے کہ پاکستان نے 2016 میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی عملے کی حفاظت کے لیے فوج میں سپیشل سیکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا تھا جس میں 50 ہزار سے زائد فوجی جوان تعینات ہیں۔ اس ڈویژن کو 32 ہزار پیرا ملٹری فورسز یعنی فرنٹیئر کور، پولیس اور لیویز کی سپورٹ بھی حاصل ہے۔

اس کے علاوہ پولیس فورسز میں سی پیک کی الگ سے ٹاسک فورسز موجود ہیں اور پھر چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور اسلام آباد پولیس کے کاونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ بھی اس حوالے الگ سے کام کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے اپنی سکیورٹی لانے کا چینی مطالبہ تسلیم کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ اگر آج چین کو یہ اجازت دی جاتی ہے تو کل کوئی بھی ملک پاکستان میں اپنے مفادات کی نگرانی کے لیے اپنی فوج تعینات کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے جس کی دنیا میں کوئ مثال نہیں ملتی۔

سیکیورٹی چیلنجز کا ادراک ہے،پاکستان

پاکستان نے موقف اختیار کیا ہے کہ چین کو پاکستان میں درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا ادراک ہے لہازا اسے اپنی فوج یا سیکورٹی تعینات کرنے پر اصرار کی بجائے پاکستانی سیکورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانے میں مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کی موثر انداز میں کمر توڑی جا سکے۔

یاد رہے کہ حالیہ سالوں میں پاکستان میں سی پیک پراجیکٹ پر کام کرنے والے درجنوں انجینیئرز اور ورکرز دہشت گرد حملوں میں مارے گئے ہیں۔ چین پاکستان میں اپنے شہریوں پر حملوں میں ملوث افراد کو کٹہرے میں لانے اور فول پروف سیکیورٹی فراہم کرنے کے مسلسل مطالبات کر رہا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات کے بعد یہ بازگشت سنائی دے رہی تھی کہ بیجنگ پاکستان میں اپنے باشندوں کی سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔ وائس آف امریکہ کو ملنے والی معلومات کے مطابق چین یہ دباؤ ڈال رہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے اس کے ہزاروں باشندوں کے لیے چینی سیکورٹی گارڈز تعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔

پاکستان نے چینی گارڈز کی تعیناتی کا مطالبہ مسترد کردیا

بتایا جاتا ہے کہ اکتوبر 2024 میں کراچی ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے خود کش حملے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت کے بعد چینی حکام نے دوبارہ اپنے عملے کی حفاظت کے لیے چینی سیکیورٹی گارڈز تعینات کرنے پر اصرار کیا، لیکن پاکستانی حکام نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے معذرت کر لی یے۔

دونوں ممالک کی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔

البتہ سیکورٹی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے اپنے باشندوں اور ورکرز کی سیکیورٹی سے متعلق بڑھتے خدشات پہلے ہی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

مبصرین کے خیال میں پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں پر پے درپے جان لیوا حملوں نے چین کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس بارے میں سخت مؤقف اختیار کرے۔ یاد ریے کہ گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان میں دو بڑے دہشت گرد حملوں میں سات چینی باشندے ہلاک اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔

چینی سفیر نے حال ہی میں اسلام آباد میں ایک تقریب میں پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے کو ناقابل قبول قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ چین کو پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے بارے میں سب سے زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔

چینی شہریوں پر 17 حملے کیے جا چکے ہیں،اعدادوشمار

اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے 2024 تک پاکستان میں چینی شہریوں پر 17 حملے کیے جا چکے ہیں جن میں ایک درجن سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور 37 چینی شہری زخمی ہوئے۔

یاد رہے کہ دنیا میں کسی بھی ملک میں چین کے مفادات اور شہریوں پر اس قدر حملے نہیں ہوئے جس کی بنیادی وجہ بلوچستان لیبریشن آرمی کی چین سے دشمنی ہے کیونکہ وہ گوادر پراجیکٹ میں بھی شامل ہے۔
یہ حملے پاکستان کے علاوہ خود چینی قیادت کے لیے بھی شرمندگی کا باعث ہیں۔ اس لیے چینی قیادت کی بےچینی کی وجوہ واضح ہیں۔

مبصرین کے مطابق پاکستان میں چین کے جاری منصوبے اس مرحلے میں ہیں کہ وہ اب یہاں سے اپنے ورکرز کو واپس نہیں بلا سکتا لہازا اسے کام جاری رکھنے کے لیے اپنے لوگوں کی سیکیورٹی بھی یقینی بنانا ہو گی۔

پاکستان بھی سی پیک منصوبوں پر اب اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اسے رول بیک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان کے بقول حالیہ واقعات سے پیدا ہونےو الے سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں چین کے خیال میں ان منصوبوں کی حفاظت محض

پاکستانی حکام کے حوالے کرنے پر بھی اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔

سیکورٹی امور کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کئی جانوں کے ضیاع کے بعد چینی شہری پاکستان کا رُخ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے بقول چین اسی وجہ سے اپنے ورکرز کی اندرونی سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے چینی گارڈز لانے کے مطالبے پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے 50 ہزار سے زائد فوجی جوانوں کے علاوہ خفیہ ایجنسیاں بھی ان کی سیکیورٹی نگرانی پر مامور ہیں۔اس لیے اگر چین اپنے ورکرز کی حفاظت کے لیے اپنے سیکیورٹی اہل کار پاکستان لاتا ہے تو یہ پاکستان ارمی پر اس کا اظہار عدم اعتماد ہو گا۔

ویسے بھی اگر پاکستان اپنی سرزمین پر چینی سیکورٹی فورسز کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے تو اس سے اس کی خودمختاری پر حرف آئے گا لہذا چینی مطالبہ رد کر دیا گیا ہے۔

Back to top button