PTM رہنما محسن داوڑبلوچستان بدر، اسلام آباد بھیج دیا گیا

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو حکام نے بلوچستان بدر کر کے واپس اسلام آباد بھیج دیا ہے۔5 ستمبر کے روز محسن داوڑ کو کوئٹہ ایئرپورٹ سے دس بجے کی پرواز سے اسلام آباد بھیجا گیا۔
محسن داوڑ جمعے کی شام بلوچستان کے مختلف علاقوں کے دورے پر اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے تھے لیکن انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے کوئٹہ ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا تھا جس کے بعد حکام نے انھیں ’حفاظتی تحویل‘ میں لے کر شہر کے ایک سرکاری ریسٹ ہاﺅس میں منتقل کر دیا تھا۔بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سیکورٹی خدشات کے پیش نظر محسن داوڑ کو ان کے تحفظ کے پیش نظر حفاظتی تحویل میں لیا گیا۔تاہم پشتون تحفظ موومنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے محسن داوڑ کو حراست میں لینے کی مذمت کرتے ہوئے اسے غیر انسانی اور غیر جمہوری اقدام قرار دیا۔واضح رہے کہ محکمہ داخلہ بلوچستان نے 29 جولائی کو صوبے میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچنے پرمحسن داوڑ نے اپنے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے کو افسوسناک، غیر جمہوری اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماﺅں کے ساتھ بلوچستان میں یہ پہلاواقعہ نہیں بلکہ ارمان لونی کے قتل کے بعد گزشتہ ڈیڑھ سال سے مستقل طور پر انھیں بلوچستان نہیں آنے دیا جا رہا ہے۔محسن داوڑ نے کہا کہ وہ ایف سی کی فائرنگ سے مارے جانے والے حیات بلوچ کے خاندان سے اظہار ہمدردی اور کوئٹہ میں برمش کمیٹی کے لوگوں سے ملاقات کے علاوہ چمن میں ان لوگوں کے خاندانوں سے ملنا چاہتے تھے جو کہ مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ جب کوئٹہ ایئر پورٹ پہنچے تو ان کو ایک نوٹیفیکیشن دکھا کر یہ بتایا گیا کہ ان کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’خدشہ ہے کہ مجھے روکنے کے لیے کسی پرانی تاریخ میں اس نوٹیفیکشن کو بنایا گیا ہو گا۔‘پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما نے یہ بھی کہا کہ یہاں جمہوریت کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت صورتحال مارشل لا سے بھی بدتر ہے۔
I have just landed in Quetta and I have been stopped from leaving the airport by security agencies. I have been told that my entry to Balochistan has been barred again for 90 days. The state thinks it can break our resolve with such petty tactics. They can’t. #DaSangaAzadiDa pic.twitter.com/2BuDKJQrk8
— Mohsin Dawar (@mjdawar) September 4, 2020
پشتون تحفظ موومنٹ کی مرکزی کمیٹی کے رکن سید زبیر شاہ کے مطابق محسن داوڑ شام کو اسلام آباد کی پرواز سے کوئٹہ پہنچے تھے۔انھوں نے بتایا کہ محسن داوڑ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کیچ اور چمن کے دورے پر جانا چاہتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ چمن میں ان لوگوں کے خاندانوں سے ملنا چاہتے تھے جو کہ عید سے قبل چمن میں سیکورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔انھوں نے بتایا کہ وہ کیچ میں فرنٹیئر کور کے اہلکار کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے طالب علم حیات بلوچ کے اہلخانہ سے ملاقات کے علاوہ نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والی دو خواتین کے لواحقین سے بھی ملنا چاہتے تھے۔زبیر شاہ کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ میں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں سے بھی ملاقات کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں کی بڑی تعداد محسن داوڑ کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پہنچی تھی لیکن انہیں ایئرپورٹ سے باہر نہیں آنے دیا گیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماﺅں نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محسن داوڑ کو حکومتی تحویل میں لیے جانے کی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر حیران ہیں کہ قومی اسمبلی کے رکن کے آزادانہ نقل و حمل پر بھی پابندی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے رکن کے ساتھ اس سلوک سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کتنی جمہوریت ہے۔ انہوں نے محسن داوڑ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے ان کی مبینہ گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انہیں فون کیا تھا کہ وہ کیمپ آکر لواحقین سے ملیں گے۔ماما قدیر نے بتایا کہ جب ہم بولتے تھے کہ بلوچستان میں لوگوں کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندی ہے تو لوگ ہماری بات کو نہیں مانتے تھے لیکن آج لوگوں نے خود دیکھ لیا کہ ایک رکن قومی اسمبلی بھی بلوچستان نہیں آسکتے۔
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ محسن داوڑ کے خلاف بلوچستان میں کوئی کیس نہیں ہے تاہم سیکورٹی خدشات کے باعث ان کے تحفظ کے پیش نظرانہیں حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جمعے کو بھی کوئٹہ میں بم دھماکے کا ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ایسے واقعات کے پیش نظر ان کو ایئرپورٹ سے ضلعی انتظامیہ کے حکام نے ایک ریسٹ ہاﺅس منتقل کیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ انہیں ان کے تحفظ کے پیش نظر بلوچستان سے واپس بھیجا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رکھا گیا ہے اس لیے لوگ منفی اور بے بنیاد پروپیگینڈہ کی جانب کان نہ دھریں ۔محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان نے اس سے قبل 29 جولائی کو پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔اس سلسلے میں جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق ان پر یہ پابندی نقص امن کے تحت عائد کی گئی تھی۔اس پابندی کے تحت وہ بلوچستان کے کسی بھی علاقے میں 90 دن کے لیے داخل نہیں ہوسکتے ہیں ۔