قادری صاحب …مہاتما بدھ یا مہاتما خود!
تحریر: عطا ء الحق قاسمی ۔۔۔۔۔۔۔ بشکریہ: روزنامہ جنگ
طاہر القادری صاحب کے حوالے سے میرے تین کالم شائع ہوئے جن پر میرے قارئین نے فیس بک پر مثبت رائے کا اظہار کیا تاہم ’’جنگ‘‘ کے انہی صفحات میں محترم عبدالحفیظ چوہدری کا ایک جوابی مضمون شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے بہت مہذب انداز میں میرے ’’الزامات‘‘ کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جس سے میرے دل میں ان کیلئے احترام کے جذبات پیدا ہوئے ہیں مگر میں ذرا تصیح کر لوں ،انہوں نے میرے کسی ’’الزام‘‘ کا جواب تو کیا اس کی نفی بھی نہیں کی بلکہ یہ بتایا ہے کہ قادری صاحب کتنے بڑے عالم ہیں اور انہوں نے دین اسلام کی تفہیم اور اس کی تبلیغ کیلئے سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں جبکہ میں نے تو ان کے علم کا انکار ہی نہیں کیا تھا، بہت بڑے عالم تو مرزا غلام احمد بھی تھے۔ میرا سوال تو یہ تھا اور ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے حوالے سے جو نامناسب روایات بیان کی ہیں ان سے تو علم پناہ مانگتا ہے مثلاً مدینہ لاہور، لاہور مدینہ اور پاکستان کے دوسرے شہروں کیلئے حضورﷺ سے منسوب یہ بات کہ انہوں نے اس سفر کیلئے پی آئی اے کی فرسٹ کلاس ٹکٹ کا مطالبہ کیا اور پاکستان کے شہروں میں ان کا قیام فائیو اسٹار ہوٹلز میں ہو، ایسے مطالبات ان کی ذات گرامی سے منسوب کرنا تو ہین رسالت ﷺکے زمرے میں آتا ہے اور مریدوں سے زر اندوزی کیلئے حضورﷺ کی اس خواہش کا اظہار کہ طاہر یہ سب میزبانی تمہارے ذمے ہے۔ براہ کرم کیا کوئی مسلمان ان گستاخانہ باتوں کا تصور بھی کر سکتا ہے!
عجب سوگ تھا عجب انتقام تھا عجب انقلاب تھا!
اب میں کیا کچھ دہرائوں کہ ’’مجھے اللہ کی عظمت اور رسول اللہ کے جوتوں کی قسم ہے کہ میں نے عالم رویا میں امام ابو حنیفہ سے شرف تلمذ حاصل کیا!! دروغ گو را حافظہ نبا شد کے مصداق انہوں نے امام ؒ سے شرفِ تلمذ کا یہ دورانیہ ایک بار پندرہ اور ایک بار نو برس بیان کیا۔ ویسے بھی عالم رویا کا کوئی گواہ موجود نہیں ہوتا سو جو چاہیں کہتے رہیں، دھرنے کے دوران یہ بھی فرمایا کہ اگر میں انقلاب سے پہلے دھرنا چھوڑ دوں تو مجھے شہید کر دیا جائے اللہ کا شکر ہے کسی نے ان کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ قادری صاحب جس قدر جھوٹ بولتے ہیں اور بعض اوقات بلاوجہ بھی مثلاً بعض صحافیوں کے بقول ان کیلئے چائنز لنچ بازار سے آیا جبکہ وہ اس کی لذت کو اپنی بیگم کے ہاتھوں کا کرشمہ بیان کر رہے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا میں جب سارے ملک میں ٹیلی فونک رابطہ منقطع تھا انہوں نے رپورٹرز کو جتلایا کہ مشرف نے انہیں فون کیا تھا اور صرف مجھ سے بات کرنے کیلئے یہ رابطہ بحال کیا گیا تھا۔ اس وقت رپورٹرز ان کے پاس موجود تھے؟ حضرت نے صرف اپنے مرید کے ہاتھ سے فون پکڑ کر منہ دوسری طرف کر لیا تھا۔ اپنے والد گرامی کے بارے میں صریحاً جھوٹ کہ وہ بہت بڑے شاعر تھے اور ان کے بیسیوں شعری مجموعے شائع ہوئے اور حکمت کے بھی بہت اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے مگر افسوس ان میں سے کوئی ایک نشانی بھی ان کے پاس محفوظ نہیں ہے۔ حضورﷺ سے یہ بشارت منسوب کرنا کہ تمہاری عمر میری عمر جتنی یعنی 63برس ہو گی مگر میں نے کہا حضور میں عمر میں بھی آپ کی برابری نہیں کر سکتا چنانچہ فریقین کی رضا مندی سے 62برس مقرر ہو گئی۔ حضرت ماشا اللہ اس وقت ستر کے پیٹے میں ہیں دنیا کے سو بڑے لوگوں پر مشتمل کتاب مجھے قادری صاحب نے دکھائی تھی جس میں ان کا نام بھی شامل تھا میں نے عرض کی تھی کہ اس پبلشر کا لیٹر مجھے بھی آیا تھا کہ اس کتاب میں اپنا نام شامل کروانا ہے تو پانچ ہزار ڈالر کا ڈرافٹ بھیج دو جس پر حضرت خاموش ہو گئے!
میں برادر محترم عبدالحفیظ چوہدری سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے اس کالم میں باتیں دہرانا پڑیں مگر یہ میری مجبوری تھی کہ مجھے اپنے ان سوالوں کا جواب درکار تھا، جو درج کئے مگر آپ نے ان میں سے کسی ایک سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ ان کی کتابوں کا بوجھ بھی مجھ پر ڈال دیا۔ برادر ابھی تو میں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے وہ الفاظ یہاں نقل نہیں کئے جو ان کی غلط بیانی کے حوالوں سے تھے جس میں انہیں جھوٹا کذاب اور مکار قرار دیا گیا تھا۔ آخر میں اپنے برادر مکرم سے میں نے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ قادری صاحب عالم ہوں گے مگر ایسا علم قیامت کے روز ان عالموں کے منہ پر مار دیا جائے گا جس پر وہ خود عمل پیرا نہ رہے ہوں۔ ایک تھا مہاتما بدھ اور ایک ہمارے قادری صاحب ’’مہاتما خود‘‘ ہیں۔ چلتے چلتے مولانا رومؒ کا ایک شعر بھی سن لیں ؎
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بردل زنی یارے بود
اگر تم علم کو اپنے جسم کی آرائش بنائو گے تو یہ ایک سانپ کی طرح ہے اور اگر تم علم کو اپنے دل میں بسائو گے تو یہ تمہارا یارو یاور بنےگا۔