عجب سوگ تھا عجب انتقام تھا عجب انقلاب تھا!

تحریر:عطا الحق قاسمی۔۔۔۔۔۔بشکریہ:روزنامہ جنگ
(گزشتہ سے پیوستہ)

وطن کی محبت میں سرشار انقلابیوں نے جب اپنے کپڑے ان بلڈنگز کے جنگلوں پہ سکھانا شروع کئے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقار کی علامت ہیں تو سچ پوچھئے کہ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر لوگوں کے سرشرم سے جھک گئے۔ جب ٹی وی کیمرے نے شاہراہ دستور اور ڈی چوک سے منسلک گرین بیلٹ اور پارکس کو بیت الخلا کے طور استعمال ہوتا اور گندگی کے ڈھیر دکھائے تو گھن آنا شروع ہوگئی اور جب لائیو کوریج کرنے والوں نے وہاں تعفن اور ہر طرف سے اٹھتی ہوئی بدبو کا ذکر کیا تو لوگوں نے سانس روک لئے اور مزید شرمسار ہوئے جب پرامن دھرنے والوں نے قومی اثاثوں جیسا کہ پاکستان ٹیلی ویژن، وزیراعظم ہائوس اور پارلیمنٹ کی عمارتوں پہ حملے کئے تو ٹی وی دیکھنے والوں کے اعضا شل ہو کر رہ گئے کہ اپنے ہی اپنی عزت کی پامالی پہ تلے ہوئے ہیں باہر سے کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے خود اپنے وقار پہ کالک ملی، اپنا دامن اٹھا کر واویلا کر کے اپنا تن تک دکھا ڈالا۔ ابھی کسر باقی تھی کہ پاکستانی کرنسی (نوٹوں) پہ نازیبا نعرے لکھوا کر قومی وقار اور بھرم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔یہ دھرنا شہدائے لاہور کے سوگ میں تھا ان کے خون کے قطرے قطرے کی قیمت وصول کرنا تھی۔ حکمرانوں کے انخلا تک اورنئے نظام کے نافذالعمل ہونے تک کے وچن تھے اور ہم نے دیکھاکہ یہ سوگ تبلوں کی تھاپ پر ناچ ناچ کر منایا گیا ہم نے دیکھا کہ یہ اس سوگ میں لالی، پائوڈر، سرخی اور فیشن کی بھرمار تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اس سوگ میں شادیانے بجے ، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں اور مبارکبادیں دی گئیں۔ عجیب سوگ تھا، عجیب انتقام تھا اور عجیب انقلاب تھا کہ لکھنے والےچیخ اٹھے کہ کیا لکھیں جب کچھ لکھنے کے لئے سوچ قلم کا ساتھ دیتی ہے تو قادری صاحب کا بیان اور ڈیڈ لائن تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہماری تحریریں مسخرہ پن ہیں یا جس کے بارے میں لکھ رہے ہیں ، وہ ہے۔ یہ کیسا انقلابی دھرنا تھا کہ جس میں بعض ہنستے بستے گھر اجڑ گئے اورآخر میں جب اس امر کا انکشاف ہوا کہ اللہ نواز حکومت کو فوری گرانا نہیں چاہتا تو سب ششدر ہو کے رہ گئے کہ چالیس ضرب دو دنوں پہ محیط یہ سب کیا تھا؟ جب انقلابیوں نے روتے ہوئے اپنے خیمے لپیٹے تو راوی کہتا ہے کہ ان کے پاس واپسی کا کرایہ تک نہ تھا، خالی ہاتھ اور خالی جھولی واپسی کا سفر اتنا بھاری تھا کہ اگر اسلام میں خودکشی کی ممانعت نہ ہوتی تو اسلام آباد کی انتظامیہ کو کوئی 1000 کے قریب لاشیں اٹھانا پڑ جاتیں۔ وہ معصوم لوگ جو خالی ہاتھ اور خالی دامن واپس لوٹے ہیں وہ اپنے گلی محلے اور حلقہ احباب کا کیسے سامنا کریں گے اورانہیں کیا بتائیں گے اورکیسے بتائیں گے کہ ہم کہیں کے نہیں رہے۔ کیا ہمیں اس قسم کے انقلاب کی ضرورت ہے کہ قوم تماشا بن جائے، سارا ملک مفلوج ہو کر رہ جائے، اربوں روپے کا نقصان کر بیٹھو، اپنے ملک میں آنے والی سرمایہ کاری پہ کاری ضرب لگادو، اپنے قومی اداروں کو متعصب بنا دو، اپنی انا کی تسکین کے لئے اور دوسروں کی خواری کے لئے قرآن و حدیث کا بیجا استعمال کرو۔ اگرہم باشعور اور پڑھے لکھے اس ڈگر پہ چل پڑے تو باقی سادہ لوح کیا کریں گے۔ کیا انقلاب کا حاصل یہی کچھ تھا؟

میرے خیال میںپروفیسر صاحب کے ان ملفوظات کے بعد بظاہر میرےلئے کہنے کو کچھ نہیں رہتا مگر یہ ایک درویش کی کہانی ہےاتنی جلدی ختم ہونے والی تو نہیں۔طاہرالقادری صاحب نے رسول اللہؐ کی مقدس ذات کےساتھ جو جھوٹ وابستہ کئے تھے ان کا بیان اس سے پہلے ایک کالم میں آچکا ہے مگر یہ ہزار داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔ حضرت کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں انہوں نے اپنے ایک مرید کی تازہ تازہ تدفین کی ہے اور اب اس کے سرہانے کھڑے اسے وہ پرچہ حل کرا رہے ہیں یعنی ان سوالوں کے جواب بآواز بلند بول رہے ہیںجو سوال فرشتے اس مرید سے لحد کے اندر پوچھ رہے ہیں۔ یہ کلپ دیکھ کر مجھے ان کی قائم کردہ منہاج القرآن یونیورسٹی کے طلبا کی اسناد کی فکر لاحق ہو گئی صرف یہی نہیں حضرت کے ’’معجزات‘‘ اور ’’کرامات‘‘ اور دعوئوں پر ضیغم کتابیں لکھی جاسکتی ہیں جو طنزو مزاح کی ذیل میں آتی ہیں۔ حضرت نے انکشاف کیا کہ ان کے والد گرامی بہت بڑے ڈاکٹر تھے، انہوں نے سعودی عرب کے ایک لاعلاج حکمران کا علاج کیا جس کے نتیجے میں وہ روبصحت ہوا اور اس نے طویل عمر پائی اس نے میرے والد کے اس طبی کمال کے اعتراف کے طور پر ایک طلائی تمغہ اور سند دلائی مگر افسوس یہ دونوں چیزیں گم ہو گئیں۔ اسی طرح ان کے والد گرامی ایک بہت بڑے شاعر تھے ان کا موازنہ بڑے سےبڑے شاعر سے کیا جاسکتا ہے ان کے بیسیوں مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئے مگر صد افسوس ان میں سے ایک بھی نہیں مل رہا!

اس وقت مجھے دو دلچسپ واقعات یاد آرہے ہیں ان میں سے ایک میری بذذوقی یا خوش ذوقی کا مظہر ہے ۔جو واقعہ سنانے لگا ہوں وہ دو تین عشرے پرانا ہے ہوا یوں کہ قبلہ ایک دفعہ فلائٹ کے انتظار میں لائونج میں تشریف فرما تھے میں ان کے پاس گیا اور کہا حضرت آپ اتنے اچھے مقرر ہیں آپ اپنا قیمتی وقت تقریروں میں ضائع کرتے ہیں اس کی جگہ آپ کتابیں کیوں نہیں لکھتے؟یہ سن کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور بتایا کہ پتہ نہیں ان کی کتنی سو کتابیں شائع ہو چکی ہیں میں نے سنا ہے یہ کتابیں جنات لکھتے تھے!

دنیا کے چار آسان ترین کام

اور اب آخر میں ایک ’’آخری بات‘‘ جسے آپ اخیر کر دینا کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ قبلہ کی دعوت پر میں ایک دفعہ ان کے در دولت پر حاضر ہوا کچھ دیر بعد انہوں نے ایک ضخیم انگریزی کتاب مجھے دکھائی جو شاید امریکہ سے شائع ہوئی تھی اس کا عنوان کچھ اس قسم کا تھا ’’اس صدی کے سو بڑے آدمی ‘‘ اور فرمایا اس میں مجھ ناکارہ خلائق کا نام بھی شامل ہے اور واقعی ایسا تھا بلکہ اس کےساتھ ان کی تصویر بھی تھی میں نے عرض کی قبلہ اس کتاب کے پبلشر کا خط مجھے بھی آیا تھا اور وہ مجھے بھی اس صدی کے سو بڑی شخصیات میں شامل کرنا چاہتا تھامگر اس کےساتھ پانچ ہزار ڈالر کا ڈرافٹ بھیجنے کا بھی کہا گیا تھااور میں صرف یہ شرط پوری نہ کر سکنے کی وجہ سے اس اعزاز سے محروم رہ گیا’’یہ سن کر قبلہ تصویر غم بن کر رہ گئے اور میں بغیر اجازت لئے اٹھ کر آ گیا‘‘

Back to top button