ریاست پاکستان کے لیے گھبرانے کا وقت کیوں شروع ہو چکا؟

معروف صحافی اور لکھاری وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ جس طرح امریکہ کو اندازہ نہیں تھا کہ افغان قالین اس قدر تیزی سے اسکے پیروں تلے سے کھسک جائے گا، اسی طرح پاکستان کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ افغان قالین پیروں تلے آنے سے پہلے ہی پھسلنا شروع ہو جائے گا۔
لہذا تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں پاکستانی ریاست کے گھبرانے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔
بی بی سی کے لئے اپنے تازہ تجزیے میں وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ سی آئی اے کا تخمینہ تھا کہ امریکی افواج کو تیس سے نوے دن مل جائیں گے جس دوران افغانستان سے منظم اور جامع انخلا ہو پائے گا۔ یہ یہ یقین اتنا پختہ تھا کہ امریکیوں کی جانب سے بگرام کا سب سے اہم اور مرکزی اڈہ سب سے آخر میں چھوڑنے کے بجائے سب سے پہلے راتوں رات خالی کیا گیا مگر جس افغان آرمی کے سر پر یہ قدم اٹھایا گیا وہ آخری امریکی فوجی نکلنے سے پہلے ہی بکری ہو گئی۔ امریکی سی آئی اے کی طرح پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بھی گمان تھا کہ ڈیجیٹل دور کی اینڈرائیڈ پسند طالبان نسل گذشتہ نسل کے برعکس اپنا نظریاتی وجود برقرار رکھتے ہوئے ہاتھ ہولا رکھے گی۔ لہٰذا اسکا خیال تھا کہ طالبان کی جانب سے قومی سطح پر صنفی و نسلی نمائندگی اور اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے وعدوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ تھی کہ طالبان بھی افغان ہیں لہٰذا ایک کثیر نسلی افغان ڈھانچے کی اندرونی نزاکتیں ان سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اسی اعتماد کے سہارے طالبانی کابینہ کی تشکیل سے قبل آئی ایس آئی کے ہنس مکھ سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے نے کابل میں کیمروں کے سامنے چائے کا کپ تھاما۔ وسعت اللہ خان کہتے ہیں لیکن یہ تو جیدا حلوائی بھی جانتا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان چھوڑا ضرور ہے مگر خزانے کی چابی نیفے میں اڑس کے لے گئے ہیں۔ یہ تو اسلم کن کٹے کو بھی ادراک تھا کہ کیا دوست کیا دشمن سب کی ایکسرے نگاہیں اس وقت طالبان کا ایک ایک قدم گن رہی ہیں۔ سب کو توقع تھی کہ دنیا دکھاوے کے لیے سہی مگر طالبانی کابینہ کی تشکیل کچھ یوں ہو گی کہ اس میں کم ازکم ایک خاتون،بھلے وہ مکمل باپردہ ہی کیوں نہ ہو ضرور شامل ہو گی، خیال کیا جا رہا تھا کہ ایک تاجک چہرہ، ایک ازبک شخصیت اور ایک ہزارہ رہنما ضرور افغان کابینہ میں شامل ہوں گے تاکہ طالبانی دوست باقی دنیا سے کہہ پائیں کہ افغان طبقات کی نمائندگی کے وعدے کی جانب ابتدائی پیشرفت ہو رہی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ نمائندگی اور بڑھتی جائے گی۔
مگر افغان کابینہ کے ناموں سے اندازہ ہوا کہ یہ تو طالبان کابینہ ہے اور یہ کہ طالبان کے دوست بھی انھیں سمجھانے میں ناکام رہے کہ نظریہ بھلے آسمانی ہی کیوں نہ ہو لیکن کاروبارِ حکومت و ریاست زمین پر ہی چلتے ہیں۔ وسعت کہتے ہیں کہ ڈرائیور کا تقویٰ و پرہیز گاری و سادگی سر آنکھوں پر مگر گاڑی صرف پیٹرول کی زبان سمجھتی ہے۔ اب تصویر کچھ یوں بن رہی ہے کہ مغرب طالبانی حکومت کا معاشی گلا گھونٹنے کے درپے ہے اور طالبان ریاستی بقا کے لیے ناگزیر مصلحتی حکمتِ عملی اپنانے پر بھی تیار نہیں۔ اس کے نتائج جو نکلیں گے سو نکلیں گے مگر پاکستان کا گھبرانا بنتا ہے۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں توقعات پر پورے نہ اترنے والے طالبان اور پنڈی اسلام آباد سے ہر توقع وابستہ کرنے والی مغربی دنیا کے مابین پاکستان سینڈوچ بنتا جا رہا ہے۔ ہم نے ہاتھی تو خوشی خوشی خرید لیا مگر اسے اب کھلائیں کہاں سے اور سدھائیں کیسے؟ چالیس برس سے ’رل تے گئے آاں پر چس بڑی آئی اے‘ کے اصول پر کھڑی افغان پالیسی سے جان چھڑانا بھی مشکل اور اس کی کل سیدھا کرنا تو اور مشکل۔
وسعت اللہ کہتے ہیں کہ کل تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی کہ بے اقتدار طالبان اگر کسی کی سنتے ہیں تو بس ’آپ کے بھائی‘ کی سنتے ہیں لیکن اب با اقتدار طالبان جس طرح کا رویہ دکھا رہے ہیں اس کے بعد پاکستان بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ پہلے وہ بھائی کی تھوڑی بہت سن لیتے تھے مگر اب نہیں۔ مگر باقی دنیا کو آج بھی یقین ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر اپنے اثر و رسوخ کے بارے میں خوامخواہ کسرِ نفسی سے کام لے رہا ہے۔ ورنہ آئی ایس آئی کے سربراہ کاہے کو کابل جا کر کہتے کہ ’جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ انکے مطابق طالبان کو توقع ہے کہ چین، روس، خلیجی ریاستیں اور پاکستان افغانستان کی معاشی کشتی ڈوبنے نہیں دیں گے۔ پاکستان بھی مغرب کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان ڈوبا تو اکیلے نہیں بلکہ بہت سوں کو لے کر ڈوبے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے پہلے ہی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے انھوں نے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد کے بقول اب افغان طالبان پاکستان کی نہیں سنتے تو پھر وہ عمران خان کی مانیں گے کیوں؟
لیکن وسعت کے مطابق اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی ترجیح چین کا سٹرٹیجک گھیراؤ ہے اور اسے گذشتہ ماہ کی کابلی سبکی کے بعد یہ ثابت بھی کرنا ہے کہ وہ اب بھی ’نمبر ون‘ ہے، چنانچہ کوئی بھی ایسا علاقائی بحران جس سے چینی مفادات پر ضرب پڑ سکتی ہو امریکہ کو قابلِ قبول ہے۔ اب پاکستان جیسے ملکوں کے لیے چیلنج یہ ہے کہ انھیں ہاتھیوں کی ناگزیر لڑائی میں کس طرح عدم استحکام اور دھشت گردی کی ممکنہ لہر سے خود کو، سی پیک کو، اپنی علاقائی و سٹرٹیجک اہمیت اور رسے پر تنی معیشت کو بچانا ہے۔ یعنی پاکستان کی ریاست اور حکومت کے لئے ایک گھبرانے کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔