سری لنکا میں معاشی بحران عوامی بغاوت کی وجہ کیسے بنا؟

بدترین معاشی بحران کا شکار ہونے کے بعد سری لنکن عوام نے بغاوت کرتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم کو استعفے دینے پر مجبور کردیا ہے جس کے بعد سے ملک شدید سیاسی بحران میں گھر چکا ہے۔ سری لنکا کے 22 ملین عوام اس وقت ضروری اشیا کی شدید تر قلت سے دوچار ہیں۔ سری لنکا پر اس وقت 50 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا غیر ملکی قرض ہے۔ اسکے علاوہ ملک میں پٹرول، ادویات اور خوراک جیسی ضروری اشیا بہت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان کی طرح سری لنکا بھی اس بدترین معاشی بحران سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہا تھا، لیکن اب سری لنکا صدر اور وزیراعظم کے استعفوں کے بعد کوئی ڈیل ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔
اداکارہ میرا سلمان خان سے شادی کرنے کے لیے تیار
اپنے ذمے پچاس بلین ڈالرز کے بیرونی قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہنے والی جزیرہ ریاست سری لنکا کی معیشت سال رواں کی پہلی سہ ماہی کے دوران مزید ایک اعشاریہ چھ فیصد سکڑ گئی ہے اور حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ سری لنکا کبھی اقتصادی ترقی کی اپنی متاثر کن رفتار کے باعث جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے لیے ایک قابل رشک مثال تھا۔ لیکن اب اسے درپیش حالات اتنے پریشان کن ہیں کہ حکومت نے ایمرجنسی سروسز کو چھوڑ کر ملک بھر میں ایندھن کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ اس سال یکم جنوری سے اب تک ملکی کرنسی کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر میں بھی 50 فیصد سے زائد کی کمی ہو چکی ہے۔ حالت یہ ہے کہ سری لنکا کے پاس پٹرول درآمد کرنے کے لیے زر مبادلہ بھی نہیں ہے، افراط زر کی شرح عام شہریوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ حد تک بڑھ چکی ہے اور عام اشیائے صرف کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔
تاہم سری لنکا کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار اسکے حکمران خاندان کو قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی سری لنکا کی سیاست میں بھی چند مخصوص خاندانوں کی حکمرانی کی کہانی نئی نہیں۔ یہاں بھی موروثی سیاست اپنے عروج پر ہے مگر راجا پکشے خاندان نے تو اسے نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے، جہاں سے سری لنکا کے زوال کی کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت سری لنکا ایک معاشی بحران اور ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے جہاں اب حکمران مستعفی ہو کر عوامی غضب کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سری لنکا کے اس بحران کو سمجھنے کے لیے کے حکمراں خاندانوں سے متعلق معلومات ضروری ہیں تاکہ یہ جانا جا سکے کہ کولمبو کی سیاست کے رُخ کا تعین کون اور کس طرح کرتا ہے۔
ایک زمانے میں سری لنکا میں بندرانائیکے خاندان کا بول بالا تھا۔ راجا پکشے خاندان سے قبل سری لنکا میں ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے وزیر اعظم بنے۔ بندرانائیکے کو 26 ستمبر 1959 کو ایک بودھ انتہا پسند نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کے بعد انکی اہلیہ سری ماؤ بندرانائیکے سیاست میں آئیں۔ 20 جولائی 1960 کو سری لنکا کے عوام نے انھیں وزیراعظم منتخب کیا۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ اس کے بعد سریما بندرانائیکے کی پوتی چندریکا کمارا ٹنگا صدر بن گئیں۔ چندریکا 1994 میں سری لنکا میں صدارت کا منصب سبنھالنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔ لیکن بندرانائیکے خاندان نے کبھی بھی راجا پکشے خاندان کی طرح ملک کے اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کیا۔
ماضی میں سری لنکا میں سیاسی خاندانوں کا غلبہ رہا ہے جیسے سینانائیکے، جے وردھنے اور بندرانائیکے، لیکن راجا پکشے خاندان نے خاندان پرستی کی نئی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ گذشتہ 15 برسوں میں اس خاندان نے سیاست میں کئی اُتار چڑھاؤ دیکھے لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح یہ خاندان ملکی سیاست میں مرکزی اہمیت حاصل کر گیا۔ ایک طرح سے مہندا راجا پکشے اس خاندان کے سربراہ ہیں۔ تاہم، ان کے چھوٹے بھائی گوتابایا راجا پکشے شمالی سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف خانہ جنگی میں اپنے متنازع کردار کے باعث بہت مشہور ہوئے۔
وہ ملک کے صدر تھے لیکن تازہ ترین سیاسی ہلچل کے بعد انھوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اب وہ بیرون ملک منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک راجا پکشے خاندان کے پانچ افراد سری لنکا کی حکومت میں وزیر تھے، ان میں سے چار بھائی تھے، اور پانچواں ان بھائیوں میں سے ایک کا بیٹا تھا۔ صدر گوتابایا راجا پکشے وزیر دفاع بھی تھے۔ مہندا راجا پکشے وزیر اعظم، چمل راجا پکشے وزیر آبپاشی، باسل راجا پکشے وزیر خزانہ، نمل راجا پکشے وزیر کھیل مہندا راجا پکشے کے بیٹے تھے۔
ماضی میں سری لنکا میں سیاسی خاندان صرف حکومت کنٹرول کرنا چاہتے تھے لیکن یہ خاندان پورے نظام کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے تمام اہم ترین وزارتیں اور محکمے اسی کے پاس تھے۔ تاہم جب دنیا بھر میں کرونا پھیلا تو سری لنکا بھی اس کی زد میں آگیا جس کی معیشت کا انحصار دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں پر ہے۔ جب سیاحوں کی آمد بند ہوئی تو سری لنکا کی معیشت بھی ڈوب گئی۔ امریکی شہریت رکھنے والے صدر گوتابایا راجاپکشے نے ایک ماہ قبل شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد قوم سے خطاب کیا اور قانون کی عملداری بحال کرنے کا عزم دہرایا۔ تقریر میں اپنے استعفے کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے صدر راجاپکشے نے کچھ اختیارات پارلیمان کو دینے اور نئے وزیراعظم کی تقرری کی پیشکش کی تاہم اس حوالے سے انھوں نے کوئی ٹائم ٹیبل نہیں دیا۔ تاہم وزیر اعظم کے چھوٹے بھائی صدر گوتابایا راجا پاکشے کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے چند روز پہلے مظاہرین نے صدارتی محل پر قبضہ کر کے صدر اور وزیراعظم دونوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ان دونوں نے بعد میں استعفے بھی دے دیے۔ لیکن اب حزب اختلاف کے سیاستدانوں نے خبردار کیا ہے کہ فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا بہانہ دینے کے لیے تشدد کے واقعات کو ہوا دی جا سکتی ہے۔ سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے بھی ممکنہ بغاوت کی افواہوں کو ہوا ملی ہے۔ تاہم فوج نے اس بات کی تردید کی ہے۔ سری لنکا کی معاشی حالت اور اس خاندان پر عوامی غصے کے بعد یہ سوچنا بظاہر مشکل ہے کہ اس خاندان کا ملکی سیاست میں کوئی مستقبل ہوگا۔ لیکن سیاست غیر یقینی صورتحال کا نام ہے اور کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے سیاسی منظرنامے سے باہر ہو گیا، گمراہ کن ہو سکتا ہے۔