کیا محسن نقوی پر بطور چیئرمین PCB کی جانے والی تنقید جائزہے؟
تحریر: حسن نقوی
پاکستانی کرکٹ حال ہی میں ایک مشکل دور سے گزری ہے، جس میں مسلسل شکستوں کا سامنا رہا، خاص طور پر اگست 2024 میں بنگلہ دیش کے خلاف تاریخی شکست نمایاں رہی۔ کسی بھی کھیل کی ناکامی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی قیادت پر سوالات اٹھنا لازمی ہیں، اور موجودہ چیئرمین محسن نقوی کو بھی تنقید کا سامنا رہا۔ لیکن اگر ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو ٹیم کی ناکامیوں کا ملبہ محسن نقوی پر ڈالنا غلط اور پاکستان کرکٹ کے دیرینہ مسائل سے لاعلمی کا مظہر ہے۔
وہ ناقدین جنہوں نے عجلت میں پاکستان کی پچھلی ناکامیوں کا ذمہ دار محسن نقوی کو ٹھہرایا تھا، اب شاید خود کو اس بات پر مجبور پائیں کہ ملتان کی حالیہ فتح میں ان کے کردار کو تسلیم کریں۔ تاہم، ان کی پچھلی تنقیدیں، جو فوری نتائج پر مرکوز تھیں، محسن نقوی کی پی سی بی کی قیادت سنبھالنے کے بعد سے ان کی جاری اصلاحات کو نظر انداز کرتی ہیں۔ آج اس کامیابی کا سہرا ان کے طویل مدتی وژن کا نتیجہ ہے۔ ناقدین کو اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کامیابی صبر سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ عارضی ناکامیوں پر جلد بازی میں فیصلے کرنے سے۔
وراثت میں ملنے والے مسائل، خود پیدا کردہ نہیں
جب محسن نقوی نے پی سی بی کی قیادت سنبھالی تو انہیں ایک ایسی ٹیم ملی جو پہلے ہی گہرے مسائل کا شکار تھی۔ کھلاڑیوں کی غیر مستقل کارکردگی سے لے کر ملکی کرکٹ کا کمزور نظام، قومی ٹیم کی کمزوریاں واضح تھیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد نقوی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ ناکامیاں ایک وسیع تر پس منظر میں سمجھی جانی چاہئیں۔
بنگلہ دیش کے خلاف شکست صرف ناقص انتظامیہ کی وجہ سے نہیں ہوئی؛ یہ ٹیم کی دیرینہ مشکلات، خاص طور پر دباؤ برداشت کرنے میں ناکامی کی نشاندہی کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش کی ٹیسٹ کرکٹ میں ابھرتی ہوئی کارکردگی بھی اس نتیجے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی بیٹنگ کا مکمل طور پر ناکام ہونا ایک اجتماعی ناکامی تھی، جس کا ذمہ دار محسن نقوی کو اکیلا قرار نہیں دیا جا سکتا۔
طویل المدتی اصلاحات پر توجہ
اپنے دور میں، محسن نقوی نے طویل المدتی اصلاحات کے نفاذ کے لیے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ فوری کامیابیاں حاصل کرنے کی بجائے، انہوں نے کرکٹ کے مسائل کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی اصلاحات میں ملکی کرکٹ کا نظام بہتر بنانا، نوجوان ٹیلنٹ کی نشوونما، اور کھلاڑیوں کی فٹنس اور ذہنی مضبوطی کو فروغ دینا شامل ہیں۔ یہ اقدامات قومی ٹیم کی مستقبل کی کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔
بنگلہ دیش کے خلاف شکست کے بعد محسن نقوی کا عوامی بیان ان کی وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے ٹیم کی خراب کارکردگی کو تسلیم کیا اور بہتری لانے کا وعدہ کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کی قسمت بدلنے پر مرکوز ہیں۔
ملتان کی فتح: ترقی کا نشان
محسن نقوی کی قیادت میں ایک اہم لمحہ پاکستان کی حالیہ انگلینڈ کے خلاف ملتان میں فتح کے ساتھ آیا۔ نوجوان اسپنرز، نعمان علی اور ساجد خان کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کو 152 رنز سے شکست دی اور سیریز برابر کی۔ اس فتح نے پاکستان کی ہوم سیریز میں مسلسل ناکامیوں کا خاتمہ کیا اور اسپنرز کی اہمیت کو اجاگر کیا، جو کہ محسن نقوی کی حکمت عملی کا حصہ تھے۔
نعمان کی 11 اور ساجد کی 9 وکٹوں نے نوجوان ٹیلنٹ کی صلاحیت کو ظاہر کیا۔ ان کی واپسی، جس پر پہلے تنقید کی گئی تھی، محسن نقوی کی حکمت عملی کو ایک بہترین چال ثابت کرتی ہے۔ یہ فتح صبر اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے فوائد کی عکاس ہے۔
صرف قیادت کا مسئلہ نہیں
پاکستان کرکٹ ٹیم کی حالیہ جدوجہد میں قیادت کے علاوہ بھی مسائل شامل ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی میں اہم کھلاڑیوں کی فارم میں کمی، جیسے کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، اور شاہین شاہ آفریدی بھی شامل ہیں۔ ٹیم کی ذہنی مضبوطی اور فٹنس پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، جیسا کہ بنگلہ دیش کے خلاف مکمل ناکامی سے ظاہر ہوا۔
کرکٹ ایک ذہنی کھیل بھی ہے، اور پاکستان کی حالیہ کارکردگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ٹیم کو ذہنی طور پر مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ میدان میں ہونے والی ہر غلطی کا ذمہ دار محسن نقوی نہیں ہو سکتے، لیکن ان کی قیادت کھلاڑیوں کو ترقی دینے کے لیے سازگار ماحول فراہم کر رہی ہے۔
آگے کا راستہ: بہتری کا وژن
محسن نقوی کی قیادت سے اہم تبدیلی کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ ناقدین فوری نتائج پر توجہ دیتے ہیں، حقیقی ترقی کے لیے زیادہ صبر کی ضرورت ہے۔ نقوی کی طرف سے متعارف کرائی گئی اصلاحات—نوجوان ٹیلنٹ کی پرورش، ملکی کرکٹ کو مزید مسابقتی بنانا، اور کھلاڑیوں کی ذہنی اور جسمانی حالت کو بہتر بنانا—کچھ وقت لے گی۔
میڈیا سے ان کی مؤثر بات چیت، مسائل کو کھل کر بیان کرنا، اور پی سی بی کی اصلاحات کے لیے ان کی آمادگی ایک شفاف اور مؤثر قیادت کی نشانی ہیں۔ انہوں نے طویل المدتی فائدے کے لیے مشکل فیصلے کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
منصفانہ تناظر
محسن نقوی کے دور کو حالیہ شکستوں کی بنیاد پر ناکامی قرار دینا پاکستان کرکٹ کے دیرینہ مسائل کو نظرانداز کرنا ہوگا۔ ان کی طویل المدتی اصلاحات کے لیے وابستگی، مسائل کو سامنے لانے میں شفافیت، اور پاکستان کی کرکٹ کا ڈھانچہ مضبوط بنانے کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔
نقوی کا دفاع کرنے کا مطلب ٹیم کی حالیہ خراب فارم کو نظرانداز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ حقیقی تبدیلی صرف قیادت سے ممکن نہیں۔ ملتان میں انگلینڈ کے خلاف کامیابی، جس میں نوجوان ٹیلنٹ نے اہم کردار ادا کیا، ظاہر کرتی ہے کہ نقوی کا نقطہ نظر کامیاب ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ، ان کا وژن پاکستان کرکٹ کو ان بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے، جہاں وہ جانا چاہتی ہے۔