اندرونی اختلافات کا شکار PTI اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگی

عمران خان کی تحریک انصاف اندرونی اختلافات بڑھنے کے بعد اب واضح طور پر کئی دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید کی گرفتاری اور عمران خان سے جیل ملاقاتوں پر پابندی کے بعد دوسرے درجے کی پی ٹی آئی قیادت اپنی سیاسی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اب اپنا وجود برقرار رکھنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی یے کیونکہ کئی سینئر پارٹی رہنماؤں کی آپسی لڑائی نے پارٹی کو عملی طور پر قیادت سے محروم کردیا ہے، اور دھڑے بندی نے جڑیں پکڑنا شروع کردی ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بار بار احتجاج کی کالز ناکام ہونے کے بعد اب پی ٹی آئی کارکنان بھی اپنی قیادت سے سے ناراض اور مایوس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پچھلے دو ہفتوں کے پارٹی کارکنوں کی نظروں سے دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے دوسری درجے کی قیادت نے عمران خان کو اکیلا چھوڑ دیا ہے اور احتجاج کے اس راستے سے بھٹک گئی یے جس کا بانی نے حکم دیا تھا۔ پارٹی کارکنان سمجھتے ہیں کہ علی امین گنڈا پور سے لے کر بیرسٹر گوہر خان تک پارٹی قیادت اپنے حکومت مخالف موقف میں کافی نرمی لا چکی ہے اور اس حوالے سے عمران خان کی پالیسی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

پارٹی کارکنوں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کالوں کے طریقہ کار اور پھر انہیں منسوخ کرنے کے انداز سے ناراض نظر آتی ہے، خطرناک صورتحال یہ ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی زیر سربراہی مختلف دھڑے مرکزی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کے اندر پیدا ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے سے مسلسل متصادم ہیں۔ مثال کے طور پر جب خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مشکلات کے باوجود مظاہرین کے ایک کارواں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا تو پارٹی کے خیبر پختونخوا کے دھڑے کو اسی جذبے کا مظاہرہ نہ کرنے پر پنجاب میں موجود اپنے ساتھیوں پر تنقید کرتے دیکھا گیا۔

اسی طرح، حکومت کی جانب سے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے ابتدائی انکار کے تناظر میں پنجاب کے دھڑے نے سب سے پہلے 15 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ پنجاب میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسی دھمکی نے حکومت کو اپنا لب و لہجہ نرم کرنے پر مجبور کیا اور قیادت کو اس موقع کو اپنے جو بھی مطالبات تھے انہیں پورا کرانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے تھا تاہم آخری لمحات میں پارٹی بظاہر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور ڈاکٹر اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کرانے میں ناکام رہی۔

اگرچہ سوشل میڈیا پر ملک بھر میں پارٹی کے مختلف رہنماؤں کے درمیان اختلافات، جھگڑوں اور خراب تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے جس میں پارٹی کے پنجاب کے رہنما حماد اظہر اور علی امین گنڈا کے درمیان حال میں ہونے والا مبینہ جھگڑا بھی شامل ہے البتہ کچھ پارٹی رہنما اس کی وجہ اپنی کاتاہیوں کے بجائے حکومتی اقدامات کو قرار دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شوکت بسرا نے پارٹی کے اندر گروپ بندی کی اطلاعات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی جیسی بڑی جماعت کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے سے فیصلے کرنے میں کئی مسائل ہیں کیونکہ ہمارے قائد عمران خان حراست میں ہیں اور ان سے جان بوجھ کر رابطہ منقطع کیا گیا ہے۔

شوکت بسرا نے کہا کہ ہر رہنما کی اپنی ذہنیت ہوتی ہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے پی ٹی آئی کے ساتھ دھوکا دہی کی اور صرف سرکاری ڈاکٹروں کو عمران خان کا معائنہ کرنے کی اجازت دی حالانکہ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ 15 اکتوبر کو بانی پی ٹی آئی کے ذاتی معالج اور بہن کو ان تک رسائی دی جائے گی۔ تاہم بیرسٹر گوہر خان کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ محسن نقوی کے ساتھ عمران خان کا طبی معائنہ بمز ہسپتال کے ڈاکٹروں سے ہی کروانے کا طے ہوا تھا۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ 15 اکتوبر کو اسلام اباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی کال واپس لینے سے پارٹی ورکرز مایوسی کا شکار ہیں اور وہ علی امین گنڈا پور کا نام بھی نہیں سننا چاہتے۔ یاد رہے کہ جب احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو حماد اظہر اور کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے درمیان تکرار اور تناؤ کی خبریں گردش کرنے لگیں، اندرونی ذرائع نے تصدیق کی کہ دونوں کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا، حماد اظہر نے وزیر اعلیٰ کو ان کی پراسرار گمشدگی پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے پارٹی کارکنوں کو عملی طور پر تنہا چھوڑ کر غائب ہو گے تھے، جواب میں علی امین گنڈا پور نے کہا کہ حماد اظہر واضح طور پر سیاسی جدوجہد کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ لمبے عرصے سے مفرور ہیں اور کسی نہ کسی جلسے میں منہ دکھا کر مہینوں کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔

لاہور سے منتخب ہونے والے ایک مشتعل پارٹی رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الزام لگایا کہ اس وقت پارٹی کو چلانے والے سیاسی کمیٹی میں بیٹھے رہنما حکومت کے ساتھ ’سمجھوتہ‘ کیے بیٹھے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان سب کو اپنے کاروباروں اور خاندانوں کے حوالے سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں جس نے انہیں حکومتی دباؤ کی مخالفت اور دارالحکومت میں مارچ کرنے جیسے سخت فیصلے کرنے کے حوالے سے بالکل بے بس کردیا ہے۔ پارٹی رہنما نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب میں پارٹی کے اندر اب بہت سے گروپ کام کر رہے ہیں، حماد اظہر گروپ، میاں اسلم گروپ، شیخ امتیاز اور کرنل (ریٹائرڈ) اعجاز منہاس کے اپنے اپنے دھڑے ہیں، جبکہ عون بپی اور قریشی دھڑے بھی موجود ہیں، جنوبی پنجاب میں قبائلی گروہ اور شمالی پنجاب میں طاہر صادق اور زلفی بخاری کے گروہ بھی موجود ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کی قیادت اپنی سیاسی سمت کا تعین نہیں کر پا رہی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔

Back to top button