ڈیمو کریسی کو ڈنگنے والے زہریلے ڈیمو ایکدوسرے کو کیوں ڈسنے لگے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے خود کو کالا ڈیمو قرار دینے کے اعلان سے پاکستان کی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اختلاف کی جرات نہیں کر سکتا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری جمہوری تاریخ کی نس نس میں ڈیموکریسی دشمن ڈیموئوں کے ڈنک کا زہر پھیلا ہوا ہے، یہ جو جسدِ جمہوریت کفن مین لپٹا ہے، یہ جو کروڑوں لوگ درد سے بلبلا رہے ہیں، یہ سب شعبدے جمہوریت دشمن ڈیموئوں کے ڈنک کی ہی تو دین ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ماضی میں جمہوریت کو ڈنک مارنے والے ڈیمووں کی آپسی لڑائی تیز تر یوچکی ہے۔ اکثر جمہوریت پسند اس وقت وطن کے سٹیج پر ہونے والی دھینگا مشتی کو اسی نظر سے دم سادھے دیکھ رہے ہیں۔ دونوں فریقین کے ڈنک زہر سے لبریز ہو چکے ہیں اور ماضی میں جمہوریت کشی کا مشترکہ ایجنڈا لیکر ایک دوسرے کا ساتھ دینے والے ادارے اب ایک دوسرے کو ڈیمو بن کر ڈسنے کیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔

حماد غزنوی لکھتے ہیں کہ یہ کہانی کہاں سے شروع کی جائے؟ دستور ساز اسمبلی جب 1954 میں تحلیل کی گئی تو سندھ ہائی کورٹ نے اسے بحال کر دیا، وفاقی حکومت اپیل لے کر سپریم کورٹ چلی گئی اور وہاں ’’اپنے ہی ڈیموئوں سے ملاقات ہو گئی‘‘، یعنی اس ملک میں جمہوریت کے تصور کو پہلا ڈنک مارا گیا، گورنر جنرل اور ڈیمو جیت گئے، عوامی نمائندگان ہار گئے، اور پھر چل سو چل۔ ملک میں ایک کے بعد ایک مارشل لالگتا چلا گیا، اور ڈکٹیٹروں کی دُھن پر ڈیمو ڈانس کرتے چلے گئے۔جسٹس منیر سے جسٹس انوارالحق تک اور جسٹس ارشاد خان سے ثاقب نثار، آصف کھوسہ اور عطا بندیال تک ڈنک ہی ڈنک، زہر ہی زہر۔ لیکن یہ ڈنک آئین اور جمہوریت کے لیے مخصوص رہا، آئین شکن ڈکٹیٹروں کو تو زہریلے ڈیمو راگ پیلو کے میٹھے میٹھے پلٹے سناتے رہے۔

بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی حیثیت واپس بحال کرنا ہوگی: خواجہ آصف

 

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ آج جو لوگ بڑے فخر سے خود کو کالا ڈیمو قرار دے رہے ہیں یہ انہی کی باقیات ہیں جن کے کاٹنے سے آئین کا چہرہ سُوج چکا ہے اور اسکا حلیہ بگڑ گیا، لیکن یہ کالے زہریلے ڈیمو باز نہیں آئے اور ڈنک مارتے چلے گئے، یہ ظالم ڈیمو مادرِ وطن کے جسم میں زہر اتارتے چلے گئے۔ ان کالے ڈیموئوں نے قاضی فائز عیسی کو ڈسا لیکن وہ بچ گئے، لیکن جب انہوں نے جسٹس شوکت عزیر صدیقی کو ڈسا تو وہ نہ بچ پائے، لطف کی بات تو یہ ہے کہ جب شوکت صدیقی کو ڈسا جا رہا تھا تو ایک ڈیمو دل ہی دل میں مسکراتا ہوا چیف جسٹس سپریم کورٹ کی کرسی کی طرف محوِ پرواز تھا۔

حماد غزنوی کے بقول حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جو چھ ججوں کا جتھا سامنے آیا تھا، یا سائفر کیس کا جو فیصلہ آیا ہے، ان پر ہماری رائے جاننے کے لیے ایک قصہ سُن لیجیے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین شہید ڈوالفقار علی بھٹو کو ڈسنے والوں میں پیش پیش تھے، مکافات عمل کے اصول کے تحت انتقال کے بعد باغ جناح لاہور میں مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے ایک بڑا حملہ کر دیا۔ حملے کی شدت کے باعث جنازے میں شریک افراد موصوف کی میت کو چھوڑ چھاڑ بھاگ کھڑے ہوئے، شہد کی مکھیوں نے مولوی مشتاق حسین کی میت اور جنازہ دونوں کی بربادی پھیر دی۔ بعد میں جنازہ چھوڑ کر بھاگنے کی وجہ بتاتے ہوئے ایک کالے کوٹ والے وکیل صاحب نے فرمایا تھا: ’’ہمارا وہاں کیا کام تھا، ہمارا تو بھاگنا ہی بنتا تھا کیونکہ یہ ڈنک مارنے والوں کی آپس کی لڑائی تھی۔‘‘ پاکستان کے اکثر جمہوریت پسند بھی اس وقت قومی منظر نامے پر ہونے والی دھینگا مشتی کو اسی نظر سے دم سادھے دیکھ رہے ہیں۔ فریقین کے ڈنک زہر سے لبریز ہو چکے ہیں۔ ادارے ایکدوسرے کو ڈسنےکیلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ لہازا مشورہ یہی ہے کہ میت چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

Back to top button