ننگا ہو کر سیاست کرنے والے عمراندار ججز کو لگام ڈالنے کا فیصلہ

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر جیسے عمراندار ججز کی جانب سے ننگے ہو کر ایک پارٹی کیساتھ لگ کر سیاست میں ملوث ہو جانے کے بعد اب فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس روش کو ہر صورت روکنا ہوگا۔ معروف صحافی نصرت جاوید نے اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں کہا ہے کہ معاملہ اب 8 ججز کے مخصوص نشستوں والے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد تک محدود نہیں رہا۔ ریاست کے طاقت ور ترین ادارے سنجیدگی سے طے کر بیٹھے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے نام پر درحقیقت ”عدلیہ کی بالادستی“ کے تصور کو فروغ دیا جارہا ہے۔ لہازا عدلیہ کو قواعد وضوابط کی لگام ڈالنا ہوگی۔ اسی لیے آئین میں بے تحاشہ نئی ترامیم متعارف کروانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ یہ ترامیم متعارف نہ ہو پائیں تو پھر نہ جانے کیا ہو گا۔

نصرت کہتے ہیں کہ ”خبر“ ان دنوں پارلیمان کے ایوانوں یا حکومتی دفتروں میں نہیں بنتی۔ فیصلہ سازی کا مرکز اب کئی برسوں سے سپریم کورٹ آف پاکستان بن چکا ہے۔ اس کی مرکزیت کا آغاز افتخار چودھری کے دنوں سے ہوا تھا۔ موصوف کو چند فائلیں دکھا کر جنرل مشرف نے اپنے طاقت ور ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھ کر استعفیٰ دینے کو مجبور کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے ”انکار“ کر دیا۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔ افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کے بعد مگر وطن عزیز میں حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والوں نے دریافت یہ کیا کہ آئین کی آٹھویں ترمیم کے ختم ہوجانے کے بعد کسی منتخب وزیر اعظم کو تھلے لگانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ان کی ”اوقات“ میں لانے کے لئے صدر وزیر اعظم کو کرپٹ ٹھہرا کر برطرف کردیا کرتے تھے۔ سپریم کورٹ عموماًصدارتی عمل کو جائز ٹھہرا دیتی۔ فقط ایک بار نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کرنے کے عمل کے خلاف فیصلہ سنایا۔ مگر وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹنے کے باوجود نواز شریف کو استحکام نصیب نہ ہوا۔ ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ مداخلت کو مجبور ہوئے۔ لیکن نئے انتخابات کی بدولت بے نظیر ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے دفتر پہنچ گئیں۔ انہیں فاروق لغاری نے بطور صدر برطرف کیا تو نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی اپنے ”ہیوی مینڈیٹ“ کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے آٹھویں ترمیم کا خاتمہ کردیا۔ اسی باعث صدر کے ہاتھوں برطرف ہونے کے بجائے وہ 1999ء میں جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاءکے ذریعے گھر بھیجے گئے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے بعد سے جو سیاسی بندوبست متعارف ہوا وہ افتخار چودھری کی ”عوامی تحریک کی بدولت“ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر واپسی کی وجہ سے بتدریج ایسا رخ اختیار کرنا شروع ہوگیا جس نے عدلیہ کو منتخب پارلیمان اور حکومت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور بنادیا۔ ججز بحال کرنے والے یوسف رضا گیلانی کی ججز کے ہاتھوں بحالی کے بعد نواز شریف کی تیسری حکومت جو عمران خان اور طاہر القادری کے 126 دنوں تک جاری رہے دھرنے کے روبرو بھی سرنگوں نہیں ہوئی تھی، پانامہ سکینڈل کے بعد سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑی ہو گئی۔ازخود نوٹس کے ذریعے عدلیہ نے نوازشریف سے ”رسیدیں“ طلب کی گئیں۔ اس مطالبے کو عمران خان کی جماعت نے عوامی تائید وحمایت فراہم کی۔ پھر ریاستی اداروں نے نظر بظاہر سپریم کورٹ کے ایما پر نواز شریف کو برطرف کروانے میں مدد دینے والا ”اقامہ“ بھی دریافت کر لیا۔

نصرت کہتے ہیں کہ عمران حکومت کو اگست 2018 سے اکتوبر 2021 تک عدلیہ اور ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون میسر رہا۔ ”سیم پیج“ کی اصطلاح ان ہی دنوں متعارف ہوئی تھی۔ مگر عمران خان اس سے مطمئن نہ ہوئے۔ وہ ”خودمختاری“ دکھانے کو مچل گئے اور آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کے ذریعے اپنا ختیار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ آرمی چیف سے ٹکرا کر سولو پرواز لینے میں ناکام رہے۔ عدلیہ کو ان کی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اسی باعث ہماری تاریخ میں پہلی بار تمام اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر قومی اسمبلی میں ایک تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ اس تحریک کو قاسم سوری نے ”قومی سلامتی“ کیلئے خطرہ ٹھہراتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ ایسے میں عدلیہ کو لہٰذا متحرک ہونا پڑا۔ ”آئینی تقاضوں“کے نام پر تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کا حکم صادر ہوا اور عمران خان سابق وزیر اعظم ہو گے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کے حکم کے خلاف عاشقان عمران خان جس انداز میں چراغ پا ہوئے اس نے عدلیہ کو اپنے”امیج“ کے بارے میں پریشان کردیا۔ عمر بندیال نامہ عطائی جج نے ”ہم خیال ججوں“ کے ساتھ مل کر تحریک انصاف سے گویا معافی تلافی کی راہ ڈھونڈنا شروع کردی۔ یہ کاوش سپریم کورٹ میں گہری تقسیم کا سبب ہوئی۔ لہازا اندھی نفرت وعقیدت اب ہمیں ججوں کو اِس یا اُس سیاسی فریق کا سہولت کار تصور کرنے مجبور کر رہی ہے۔ قاضی فائز عیسی کو بھی عمران اور ان کی جماعت نے لاتیں مار مار کر دوسری طرف دھکیل دیا ہے۔ انصاف فراہم کرنے والے اعلیٰ ترین ادارے کے بارے میں ایسے تاثر کا فروغ سوچنے سمجھنے والوں کیلئے انتہائی پریشان کن ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مختص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی جانب سے سنائے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں تقسیم کا تاثر بلکہ سنگین تر ہو رہا ہے۔ حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد کو ہرگز تیار نہیں۔ اس ضمن میں وہ آئین اور قانون کی بنیاد پر جو بھی اعتراضات اٹھاتی ہے وہ خالصتاً قانونی اعتبار سے واجب قرار دئے جا سکتے ہیں۔ لیکن سیاست قانونی قواعد وضوابط کی پابند نہیں ہوتی۔ جذبات وتاثرات اس کے بنیادی عناصر ہیں۔

نصرت کے مطابق تحریک انصاف کے بدترین مخالفین بھی دل سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس جماعت کے تائید یافتہ نمائندوں کو 8 فروری 2024 کے روز عوام کی حیران کن تعداد نے بلے کے انتخابی نشان سے محروم ہوجانے کے باوجود منتخب کیا تھا۔ فہم عامہ کا لہٰذا تقاضہ ہے کہ انہیں ملے اجتماعی ووٹوں کے تناسب سے مذکورہ جماعت کو خواتین و غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستیں الاٹ کر دی جائیں۔ کامن سنس پر مبنی اس سوچ کو ”مکمل انصاف“ کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے 8 اکثریتی ججوں نے عملی شکل دینے کی کوشش کی۔ لیکن ”مکمل انصاف“ کا تصور حکومت کی نگاہ میں ”نیا آئین“ لکھنے کے لئے استعمال ہوا۔ لہازا یہ معاملہ اب ”نصابی“ نہیں رہا۔ ایسے میں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ کرنے والے 8 ججز اب مخصوص ججز کہلا رہے ہیں۔ افسوس کہ منصور علی شاہ اور منیب اختر اب باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کے آلہ کار بنتے ہوئے مرضی کے بینچوں میں بیٹھنا چاہتے ہیں اور جب دل چاہے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ معاملہ اب اِس یا آس عدالتی فیصلے پر عملدرآمد تک محدود نہیں رہا۔ ایسے میں ریاست کا طاقت ور ترین ادارہ سنجیدگی سے طے کر بیٹھا یے کہ عدلیہ کی آزادی کے نام پر درحقیقت ”عدلیہ کی بالادستی“ کے تصور کو فروغ دیا جارہا ہے چنانچہ عدلیہ کو لگام ڈالنا ہوگی۔ اسی وجہ سے آئین میں بے نئی ترامیم متعارف ۔ یہ ترامیم متعارف نہ ہوپائیں تو کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب فراہم کروانے کا فیصلہ کیا گیا یے۔

Back to top button