کیا نواز شریف کی طرف سے عوام سے ناقدری کرنے کا گلہ جائز یے؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر لاہور میں تقریر کرتے ہوئے پاکستانی عوام سے ناقدری کا گلہ کیا یے جو مشکل وقت میں انکا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور ان کیلئے سڑکوں پر بھی نہیں نکلتے۔ تاہم انکا یہ گلہ غیر سیاسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف کا یہ گلہ اس لیے جائز نہیں کہ سیاسی لیڈر تو بے لوث ہو کر کسی ریوارڈ کی امید کے بغیر ہی عوام کے کیے جدودجہد کرتا یے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اکیلے پاکستان کیلئے جو کیا ہے اور اسے جس قدر ترقی دی، باقی سیاست دان مل کر بھی اتنا کچھ نہیں کر پائے۔ لیکن اس سب کے باوجود عوام کا رسپانس ایسا نہیں جو انکی ملک کے لیے کی جانے والی خدمات کا قابل قدر جواب ہو۔ یہ بات اخلاقی طور پر تو درست ہے مگر یہ سیاسی اپروچ بالکل بھی نہیں کیونکہ ملک اور قوم کی خدمت بے لوث ہو کر کی جاتی یے۔
اس حوالے سے سینیٹر بن جانے والے نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر بٹ سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ملک میں صرف کام کے بل پر مقبولیت قائم نہیں رہتی، اس کیلئے اور بھی بہت سے کام کرنا پڑتے ہیں لیکن (ن) لیگی حکومت نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ ناص بٹ کہتے ہیں کہ اس ملک کے عوام کی سوچوں کو غیر سیاسی بنانےکیلئے دہائیوں کام کیا گیا ہے لہازا یہ ممکن نہیں کہ انکی ساخت فوری طور پر انقلابی ہو جائے۔ نواز شریف کو اسے نظرانداز ہی کرنا چاہئے اور ایک سیاسی مدبر کے طور پر اپنے زخموں کو بھلا کر قوم کو قیادت فراہم کرنی چاہئے۔ خود (ن) لیگ نے بھی اپنی پارٹی کو مزاحمتی سیاست کے مطابق کبھی تیار نہیں کیا جس کا بنیادی محور ورکرز ہوتے ہیں، ناصر بٹ کے مطابق ایسا نہیں کہ عوام کی ایک کثیر تعداد نواز شریف سے محبت نہیں کرتی، مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہر طرف جب یکطرفہ بیانیے چل رہے ہوں تو اسکا جواب دینے کو کوئی موجود نہیں ہوتا جس کی بنا پر لوگوں کا بھیڑ بکریاں بن جانا سمجھ میں آتا ہے۔اس صورتحال کا تدارک کرنےکیلئے زیادہ فعالیت کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ ناراض ہو کے بیٹھ جانے کی۔
اسی حوالے سے معروف لکھاری عطالحق قاسمی نے بھی ایک کالم لکھتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی عوام نواز شریف کی مسلسل چپ پر چپ چپ سے رہنے لگے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ میاں صاحب کی اس خاموشی کی وجہ کیا ہے کیونکہ لندن سے ان کی واپسی پر لوگوں نے بہت امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔انتخابی مہم بھی انہی کے حوالے سے چلائی گئی تھی اور اس پس منظر میں ایک بہت خوبصورت سلوگن تیار کیا گیا تھا ’’پاکستان کو نواز دو‘‘۔ سو ایسا ہی ہوا مگر عملی طور پر نواز شریف نے کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی، بس آخر میں جا کر انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت قبول کی اور گاہے گاہے اجلاس کی صدارت کرتے دکھائی دیئے۔
قاسمی صاحب کہتے ہیں کہ مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور شہباز شریف وزیر اعظم ہیں، اور میاں صاحب نتیجتاً ان کی رہنمائی کرتے ہوں گے ۔تاہم عوام میں نظر نہیں آتے اب اللّٰہ اللّٰہ کرکے دو روز بیشتر پنجاب حکومت کی اپنی چھت اپنا گھر اسکیم کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے خطاب کیا۔ اگرچہ یہ خطاب بہت زیادہ طویل نہیں تھا مگر پھر بھی غنیمت تھا کہ کفر ٹوٹا خداخدا کرکے والا معاملہ تھا۔ میاں صاحب کو کچھ زخم ایسے پہنچے ہیں کہ ان کے دل سے ان کی ٹیسیں بار بار اٹھتی ہیں اور وہ بے جا نہیں ہیں ایک شخص نے جو پاکستان کی محبت میں تین دفعہ وزارت عظمیٰ کی قربانی دے چکا ہو مگر اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ کمپرومائز یہ کیا ہو کہ زباں بندی اختیار کر لی ہو۔ یہ وہ شخص ہے جسے اس کی بیوی سے جو اس کی پہلی اور آخری محبت تھی دم مرگ بھی اس کے سفر آخرت میں شمولیت کی اجازت نہ دی گئی ہو۔ یہ وہ شخص ہے جسے کراچی سے جہاز میں ہتھکڑیاں باندھ کر لایا گیا اور جس کی بیٹی کو اس کے سامنے گرفتار کیا گیا۔میاں صاحب کو اس ڈیتھ سیل میں رکھا گیا جہاں روشنی کو اور کسی انسانی آواز کو اندر آنے کی اجازت نہ ہو۔ انکے لندن میں قیام کے دوران گندے لوگوں کا ایک ٹولہ ان کے گھر کے باہر کھڑا ہو کر گالی گلوچ کرتا رہا اور عدل وانصاف کی پیکر عدلیہ نے صرف اس الزام میں انہیں مجرم گردانا کہ انہوں نے کاغذات میں اس تنخواہ کا ذکر کیوں نہیں کیا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی تھی۔ عمران خاں اور اس کے لونڈے لپاڑے ہر وقت میاں صاحب بارے چور، ڈاکو ،لٹیرا کی گردان کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان پر لگائے گے سارے الزامات جھوٹ کا پلندہ نکلے، انکے مخالفین نے پانامہ کا شور مچایا لیکن سزا اقامہ ہر سنائی گئی۔
قاسمی کہتے ہیں کہ میں نے یہ تفصیل اس لئے بیان کی کہ نواز شریف کے دل کے یہ زخم مندمل ہونے والے نہیں۔ چنانچہ وہ ہر دفعہ انکا ذکر کرتے ہیں اور یہ گلہ بھی کہ لوگ ان کیلئے سڑکوں پر کیوں نہیں آئے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نواز شریف پاکستان کو ایشیا کی ایک تجارتی راہداری بنانا چاہتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے سارے ملک میں موٹر ویز کے جال بچھا دیئے وہ کشمیر سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے مگر وہ چاہتے تھے کہ چین کا جن علاقوں کی ملکیت کا دعویٰ ہے وہ دعویٰ برقرار ہے مگر ان سے تجارتی معاملات جاری ہیں ۔ نواز شریف بھی یہی چاہتے تھے کہ انڈیا سے تجارتی روابط بحال ہوں اس کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں کھربوں ڈالر راہداری کے طور پر وصول ہونا تھے کہ سارا مال پاکستان ہی سے ہو کر گزرنا تھا مگر نواز کا یہ ’’گناہ‘‘ ابھی تک ناقابل معافی ہے۔باقی رہا میاں صاحب کا عوام سے یہ گلہ کہ جب ان کے ساتھ زیادتیاں ہو رہی تھیں تو عوام سڑکوں پر کیوں نہیں آئے، تو بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ عوام کو سڑکوں پر لانا پارٹی لیڈرز کا کام ہوتا ہے مگر وہ اپنے اپنے کاموں میں مگن رہے۔ پارٹی میں ان دنوں پھر سے گروپ بندی عروج پر ہے اور اب تو وفاق اور پنجاب میں بھی علیحدہ علیحدہ وفاداری کی خواہش رکھنے والے برسر کار نظر آ رہے ہیں! چنانچہ اس صورتحال کو درست کرنے کی ذمہ داری میاں صاحب کی ہے چونکہ وہی اسکے صدر ہیں۔