اسٹیبلشمنٹ کا ایک نئی سیاسی جماعت میدان میں اتارنے کا پلان
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئی پارٹی یا گروپ کو سیاسی میدان میں اتارنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جو کہ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف اور اس کے بیانیے کو موئثر طریقے سے کاونٹر کر سکے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ ناکام تجربات دراصل ری پبلکن پارٹی اور کنونشن لیگ کے قیام سے شروع ہوئے اور اب ایک نیا تجربہ ہونے جا رہا ہے، اصل میں کمزور پیپلز پارٹی اور بغیر بیانیے کے نون لیگ سے فوجی اسٹیبلشمینٹ کو جس عوامی حمایت کی شدید خواہش ہے وہ اسے نہیں مل پا رہی، فوجی قیادت کو یہ بات بہت گراں گزر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کارکردگی اور بیانیے کےساتھ نئی لیڈر شپ میدان میں اتاری جائے۔ ماضی کے ایسے تجربات زیادہ تر ناکام ہوئے، ماسوائے نواز شر یف اور عمران خان کے۔ نواز شریف بھی اس لیے کامیاب ہوئے کہ پیپلز پارٹی کمزور ہو چکی تھی لہٰذا نواز نے اسے فوج کی مدد سے پنجاب بدر کر دیا۔ عمراں خان اس لیے کامیاب ہوئے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اتحاد ہوچکا تھا چنانچہ فوج کی مہربانی سے اپوزیشن کا خلا آسانی سے پُر ہو گیا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔ نون لیگ کی نہ اس وقت کوئی تنظیم ہے اور نہ کوئی بیانیہ، نہ شہباز شریف سیاست کے سٹیج پر چڑھنے کو تیار ہیں اور نہ مریم نواز نے آج تک لاہور یا پنجاب کے پارٹی عہدیداروں سے ایک بھی ملاقات کی ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب میں یوسف رضا گیلانی اور خاندان اور مخدوم احمد محمود کے خاندانوں کی وجہ سے چند نشستیں ملی ہیں لیکن صوبے میں پارٹی کا اپنا ووٹ بہت کم ہو چکا ہے جس میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے اضافہ نہیں ہو پا رہا۔
سہیل وڑائچ کے بقول سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف ہی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی مقبول ترین جماعت ہے، اگر کل الیکشن ہوں تو پی ٹی آئی پورے ملک میں سویپ کر جائے گی، یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہ پہلے تھی نہ اب ہے، اس کے ساتھ ایک ٹھاٹھیں مارتا ہجوم ضرور ہے مگر پنجاب میں نہ صوبائی سطح پر اسکی کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی ضلعی سطح پر۔ ایسے میں پی ٹی آئی بھی ایک الیکشن تو جیت سکتی ہے مگر اس کے بعد اس کا مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا۔
ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف ،عمران خان اور آصف علی زرداری پاکستان میں اوسط عمر کے حوالے سے بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، اسلئے سینئر قیادت کی ریٹائرمنٹ کے بعد مستقبل میں ایک بہت بڑے سیاسی خلا کاسامنا ہوگا۔ اب جبکہ فوجی قیادت اپنی طرف سے سب بڑے خطرات کا قلع قمع کر چکی ہے اسے فوری مسئلہ یہ درپیش ہو گا کہ سیاسی خلا کو کیسے پُر کرنا ہے۔ عدلیہ کی طرف سے خطرات سے نمٹا جا چکا اور کسی حد تک منصفوں سے موجودہ نظام تلپٹ کرنے کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے ۔
پاکستان کو آئی ایم ایف پیکیج ملنے سے ڈیفالٹ اور معاشی ابتری کا خدشہ بھی ختم ہو گیا۔ فوجی عہدوں میں توسیع سے آرمی چیف بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں۔ لیکن نظام کی مضبوطی کے باوجود یہ سوال بہرحال اب بھی موجود ہے کہ عوامی پسندیدگی اور حمایت کے بغیر یہ نظام دیرپا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ نیا ہونے والا ہے۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ صورت حال 1988ء جیسی ہے جب پیپلز پارٹی مقبولیت کی انتہا پر تھی، تب فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کی طاقت اور مقبولیت کو روکنے کےلیے آئی جے آئی کی بنیاد رکھ ڈالی، گو اس پارٹی کی تشکیل اور اس کا کردار انتہائی متنازع اور ملک کےلیے شدید نقصان دہ تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ آئی جے آئی کے پیچھے اس وقت کی آئی ایس آئی تھی۔
یہی معاملہ جنرل پرویز مشرف کی 1999 میں فوجی بغاوت کے وقت درپیش تھا تو ق لیگ وجود میں آئی تھی۔ 2002 میں پیپلز پارٹی میں سے پی پی پی پیٹریات نکالی گئی تھی، عمران خان کی چھٹی کے بعد تحریک استحکام کھڑی کی گئی، مگر وہ ناکام ہو گئی۔ ان سب تجربات یا سیاسی مہمات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا، معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا رہا اور کوئی ناصح بھی ایسا نہ تھا جس کی آواز فوج تک پہنچے اور وہ اسے مان لے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر لوہا گرم ہے اسٹیبلشمنٹ نئی سیاسی پارٹی یا گروپ کو میدان میں اتارنا ناگزیر سمجھ رہی ہے یہ نئی کنگز پارٹی تحریک انصاف کے بیانیے اور اگلے الیکشن میں اس کے مقابلےکےلیے بنائے جانے کا امکان لگ رہا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول عسکری حلقوں میں یہ سوچ ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی موثر بیانیہ، کارکردگی والی لیڈر شپ اور مضبوط شخصیت ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ میری رائے میں تو مصنوعی تجربے ناکام ہی ہوتے ہیں خیر دیکھے اس بار کیا ہوتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی نواز شریف پیدا ہوتا ہے یا پھر ناکام؟سچ تو یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نون لیگ نے کھا لیا تھا، دبائو، سختیاں اور لالچ ہر حربے سے کام لیکر پیپلز پارٹی بتدریج دفن کر دی گئی کارکردگی اور بیانیے نے بھی اثر دکھایا، اب کی بار نون لیگ کو تحریک انصاف پنجاب میں تقریباً کھا چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے کارکردگی بھی نہیں دکھائی، وہ صرف زوردار بیانیے سے ہی نون لیگ کو کچا چبا گئی۔ اب تحریک انصاف کا امتحان شروع ہے مگر مچھوں نے منہ کھول لیا ہے اور اس بار شکار تحریک انصاف ہو گیی۔ پارٹی کے اندر کامیابی سے گروپ بندی ہو چکی ہے، یوٹیوبر اور انتہا پسند ایک طرف ہیں اور منتخب اور سنجیدہ قیادت دوسری طرف۔ پارٹی کے اندر فوج کی جڑیں مضبوط ہو چکیں، دیکھیں وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو کب ظاہر کرتی ہے؟
احتجاج کی کال پر PTI میں پھوٹ پڑ گئی، کال واپس لینے کا امکان
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتیں خود کو متحرک، متحد اور مضبوط نہیں کرتیں، فوج ہی ان پر حکومت کرتی رہے گی۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ملک سنبھالنا ہے تو اسکی تیاری بھی کریں۔ نون لیگ کی قیادت اپنی پارٹی اور حکومت کے مابین دوریاں ختم کر کے سیاست اور بیانیے پر توجہ دے۔ پیپلز پارٹی کے پرانے نعرے دلکشی کھو چکے ہیں، نیا پروگرام، نئی لیڈر شپ اور نئی تنظیمیں شاید بہتری لے آئیں۔ تحریک انصاف دباؤ اور مشکل میں ہے لیکن اسکی سیاسی حکمت عملی میں دانشمندی کم اور محاذ آرائی زیادہ نظر آتی ہے۔ لمبی محاذ آرائی مضبوط جماعتوں کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے، اس لیے حکمت سے کام لیتے ہوئے سنجیدہ فکر، تجربہ کار اور متوازن قیادت سے مشورے کیے جائیں۔ جذباتی کارکنوں، سوشل میڈیا جہادیوں اور بیرون ملک محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے بمباری کرنے والوں کی سننے کی بجائے پارٹی کے اندر مدبر لوگوں سے بات کی جائے تو تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے، اگر ان تینوں جماعتوں نے ہوش سے کام نہ لیا تو ایک نئی سیاسی قوت کا بم کسی بھی وقت ان پر گرپڑے گا۔