حکومت کرپٹو کرنسی کے فروغ کا خواب خود ہی بکھیرنے لگی

 

 

 

وفاقی حکومت نے ملک میں کرپٹو کرنسی کی لائسنسنگ کو سہل بنانے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ غیرضروری دستاویزات کی بھرمار، غیر واضح قواعد اور سخت شرائط نے اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو شدید الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سرمایہ کاروں اور ایکسچینجز کو کاروباری آسانیاں دینے کی بجائے انہیں نوکر شاہی کی بھول بھلیوں میں دھکیلنے کے بعد کرپٹو بزنس سے وابستہ افراد اور کمپنیوں نے اپنے اثاثے اور سرمایہ دوسرے ممالک منتقل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے ماہرین کے مطابق اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو حکومت کا کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بنایا گیا خواب محض ریت کا محل ثابت ہوگا جو اپنی ہی بوجھ تلے دب کر بکھر جائے گا۔

 

 

خیال رہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی مائننگ اور سیل پرچیز سمیت اس سے متعلق کسی بھی کام کو انجام دینے کیلئے لائسنس کا حصول ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نئے قواعد کے مطابق لائسنس کے حصول کے لیے  متعلقہ فرد کو اپنی کمپنی کی رجسٹریشن، آپریشنل صلاحیت اور کمپلائنس یعنی تعمیل کے مکمل فریم ورک کی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس حوالے سے جمع کروائی جانے والی درخواست میں اپنے کاروباری منصوبے،  فراہم کی جانے والی خدمات اور اس کے مالیاتی پہلو بارے بھی تفصیلات جمع کروانا ہونگی جبکہ پاکستان ورچوئل ایسٹ ریگولیٹری اتھارٹی سے لائسنس کے حصول کے بعدلائسنس کی باقاعدہ تعمیل اور دیگر ذمہ داریوں کو پورا کرنا لازمی ہو گا۔

 

واضح رہے کہ پاکستان نے سٹریٹیجک بٹ کوائن ریزرو قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک میں بٹ کوائن کی ملکیت اور استعمال کو فروغ دیا جا سکے۔ حکومت نے ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ کیلئے تقریباً دو ہزار میگا واٹ بجلی کرپٹو مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے مخصوص کی ہے تاکہ مائننگ کے دوران بجلی کے شارٹ فال یا غیرقانونی استعمال کو روکا جا سکے۔

تاہم کرپٹو کرنسی ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے اب تک کرپٹو کے فروغ کے لیے کیے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ اس کے علاوہ لائسنس کے اجرا سے متعلق بھی یہ ابہام موجود ہے کہ اصل میں لائسنس کون جاری کرے گا اور کس کا کیا کردار ہو گا۔ حکومت کی جانب سے ابھی بہت سی چیزیں واضح ہونا باقی ہے۔ ماہرین کے بقول پاکستان میں ایک جانب کرپٹو کے حوالے سے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے، جبکہ دوسری جانب حکومت نے کرپٹو کونسل بھی تشکیل دے رکھی ہے۔ لیکن اب تک کے حکومتی اقدامات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ کرپٹو کرنسی سے جڑے معاملات کو آئندہ کس سمت میں لے جایا جائے گا اور اس کا اصل نگران ادارہ کون ہو گا۔

 

 

 

ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ تاحال یہ بھی واضح نہیں کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے  ریگولیٹری اتھارٹی لائسنس جاری کرے گی یا اس میں سٹیٹ بینک کا بھی کردار ہوگا، کیونکہ اس میں مالیاتی امور شامل ہیں جو سٹیٹ بینک کی نگرانی میں آتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی واضح نہیں کہ لائسنس مکمل طور پر کون جاری کرے گاجبکہ لائسن کے حصول کیلئے موجودہ قانون کے تحت جو تقاضے سامنے آئے ہیں، ان پر عام شخص پورا نہیں اتر سکتا۔ اس لیے حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہیے جس کے تحت کوئی بھی کرپٹو پر کام کرنے والا شخص فائدہ اٹھا سکے، اور ایک عام فرد جو مہارت رکھتا ہے اور اس شعبے میں آنا چاہتا ہے، اس کے لیے بھی یہ عمل آسان ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک پاکستان میں صرف بلاک چین مائننگ کے لیے ایک کمپنی کو لائسنس ملا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی کمپنی کو لائسنس جاری نہیں کیا گیا، اور اس عمل میں کئی پیچیدگیاں موجود ہیں جنہیں حل کرنا ہو گا ورنہ ملک میں کرپٹو کرنسی کا فروغ صرف ایک خواب ہی رہے گا۔ ماہرین کے بقول پاکستان میں اس وقت تقریباً اڑھائی کروڑ کرپٹو صارفین موجود ہیں، جو ایک بہت بڑی انڈسٹری کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے مکمل وضاحت کے ساتھ آگے بڑھے اور چیزوں کو آسان بنائے تاکہ ملک میں کرپٹو کرنسی کا فروغ ممکن ہو سکے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!