دریائے سندھ بچاؤ مہم نے سندھ حکومت کو مشکل میں ڈال دیا

سندھ حکومت کے متنازعہ کینال منصوبے کے خلاف صوبے بھر میں وسیع پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ تیز تر ہو گیا یے اور ’دریائے سندھ کو بچاؤ‘ مہم بڑی عوامی تحریک میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ اس تنازع نے 16 برس سے سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو دشوار صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین انگریزی روزنامہ ڈان میں اپنی تازہ تحریر میں کہتے ہیں کہ اگرچہ پی پی پی نے پنجاب میں بنجر زمینوں کی آب پاشی کے لیے چھ نہریں بنانے کے وفاقی حکومت کے فیصلے سے خود کو الگ کرلیا تھا لیکن پھر بھی اس بھونچال سے پہپلز پارٹی اتنی آسانی سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک کینال پروجیکٹ کا مطلب صوبہ سندھ کے وسیع رقبے کو بنجر زمین میں تبدیل کرنا ہے۔ وفاقی حکومت کی اتحادی پی پی پی اس تباہی کے الزام سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش تو کر رہی ہے لیکن ابھی تک ناکام رہی ہے۔
اگرچہ دریائے سندھ سے پانی کی تقسیم طویل عرصے سے سندھ کے لیے سیاسی طور پر حساس معاملہ رہا ہے لیکن حالیہ تنازع نے صوبے کی صورت حال کو انتہائی سنگین رخ دیا ہے۔ اس نے سندھی قوم پرست جماعتوں کی تحریک کو ایک بھرپور جواز فراہم کیا ہے جو صوبے کے سیاسی منظرنامے میں پی پی پی کے غلبے کی وجہ سے طویل عرصے سے متحرک نہیں تھیں۔ صوبے بھر میں مختلف سندھی قوم پرست گروہوں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے احتجاج میں ہزاروں افراد شاملنہو رہے ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان اور خواتین ہیں۔ بہت ساری مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے اراکین بھی کینال پروجیکٹ کی مخالفت میں سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے وفاقی اتحاد کو نقصان پہنچے گا۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ عوام میں بڑھتے ہوئے اشتعال نے صوبائی حکومت کو مجبور کیا ہے کہ وہ وفاقی کینال پروجیکٹ کو چیلنج کرے۔ لیکن پی پی پی کی پوزیشن کے حوالے سے کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ منصوبے پر کام کا آغاز بھی ہوچکا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت طویل عرصے سے اس پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھی۔ کچھ حلقے الزام عائد کرتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ سال اس منصوبے کی منظوری دی تھی۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں شروع کیے جانے والے وفاقی حکومت کے گرین پاکستان انیشی ایٹو initiative میں سندھ کی صوبائی حکومت نے ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی دی ہے۔ آرمی چیف اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حال ہی میں جنوبی پنجاب کے چولستان میں گرین پاکستان انیشی ایٹو کا افتتاح کیا ہے جس سے دریائے سندھ سے نکالی جانے والی نئی نہروں سے زمینوں کی آب پاشی ہوگی۔
بہت سے صوبائی رہنماؤں کے لیے مجوزہ کینال پروجیکٹ سے اٹھنے والے تنازع میں کالا باغ ڈیم پروجیکٹ کی گونج سنائی دیتی ہے جس کی تکمیل کے خلاف مظاہروں میں پورا صوبہ سندھ متحد نظر آیا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نہریں بننے سے سندھ کی جانب پانی کے بہاؤ میں مزید کمی ہوگی۔ یاد ریے کہ دریائے سندھ میں پانی کی سطح گرنے سے ہر سال ہزاروں ایکڑ اراضی سمندر کی نذر ہوجاتی ہے۔ حالانکہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے یقین دہائی کروائی ہے کہ سندھ کے حصے کے پانی کا رخ نہیں موڑا جائے گا لیکن ان کی یقین دہائی بھی اطمینان بخش نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے کوٹے میں اضافی پانی نہیں جسے وہ چولستان کینال منصوبے کو دے سکے لہازا اس کے پاس نہروں کی گنجائش پوری کرنے کے لیے پانی کہاں سے آئے گا؟
زاہد حسین کے مطانق سب سے حیران کُن بات یہ ہے کہ اتنے حساس مسئلے پر وفاق میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی اس فیصلے کو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کروایا گیا۔ یہ بھی غیر معمولی بات تھی کہ جب اس کینال منصوبے کو حتمی شکل دی جارہی تھی تب بھی پی پی پی نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ نہیں کیا۔ سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی اس مسئلے پر تب بیدار ہوئی ہے جب پراجیکٹ کے مخالفین سڑکوں پر آچکے ہیں۔
اس منصوبے کے خلاف عوامی مظاہروں کا آغاز ہوئے کئی ماہ بیت چکے ہیں لیکن عوام کی زندگیوں کو براہِ راست متاثر کرنے والے اس پراجیکٹ کے خلاف اب تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی۔ سندھ حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ وفاق کے سامنے معاملے کو مؤثر انداز میں اٹھانے میں ناکام رہے۔ اس کے باوجود ایک سنگین مسئلے سے نمٹنے میں صوبائی حکومت کی کمزور روش کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ زاہد حسین کے مطابق بات صرف وفاق کے ساتھ معاملہ اٹھانے کی نہیں بلکہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑے ہونے کی بھی ہے جو کہ گرین پاکستان انیشی ایٹو کی سرپرست ہے۔ موجودہ ہائبرڈ نظام میں فوج کے کلیدی کردار کے پیش نظر یہ بات حیران کُن نہیں کہ پی پی پی براہ راست اس مسئلے پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے سے گریز کررہی ہے۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات کے حل کے لیے ایک جامع آئینی طریقہ کار موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ حکومت سندھ 1991ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کرنے میں ناکامی کا الزام وفاقی حکومت پر عائد کرتی ہے۔ نہروں کی تعمیر کا یک طرفہ فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد نے ہماری تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کینال پروجیکٹ پر بڑھتے عوامی مظاہرے، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ اس سے انتہا پسند سندھی قوم پرست قوتیں مضبوط ہوں گی۔ وسیع پیمانے پر ہونے والے یہ مظاہرے اشرافیہ کے تسلط کے خلاف عوام بالخصوص نوجوانوں میں بڑھتی بےچینی کا محض ایک رخ پیش کرتے ہیں۔ کینال منصوبے کے خلاف عوامی رد عمل سندھ پر دہائیوں سے حکومت کرنے والی پی پی پی کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ مبصرین کہتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے پی پی پی کا واحد مقصد اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن پارٹی قیادت شاید صوبے کے تیزی سے تبدیل ہوتے سماجی اور سیاسی منظرنامے سے واقف نہیں ہے۔ انکا کہنا یے کہ سندھی قوم پرستوں کی جانب سے مظاہروں کی تازہ ترین لہر پیپلز پارٹی کی قیادت اور سندھ حکومت دونوں کے لیے ایک ویک اپ کال ہے۔