تین صوبوں میں بلدیاتی الیکشن: پنجاب حکومت تاخیر کیوں کر رہی ہے؟

پاکستان کے تین صوبوں سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے باوجود پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے کو تیار نہیں اور انہیں التوا میں ڈالنے کیلئے مسلسل تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں آخری بار بلدیاتی الیکشن 10 سال پہلے منعقد ہوئے تھے۔

الیکشن کمیشن کے احکامات کے باوجود ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں تاحال لوکل گورنمنٹ کی سطح پر الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکا، سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید پنجاب حکومت صوبے میں عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہے اور اسی لیے الیکشن کروانے کا رسک نہیں لے رہی۔ صوبہ پنجاب میں 10 سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کی جانب سے نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے گریز کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔

اس سے پہلے پنجاب میں تحریک انصاف نے بھی اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کروایا تھا اور تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے ساڑھے تین برس گزار دیے جسکے بعد حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اب مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکی، حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے چکا ہے۔ اب جماعت اسلامی نے لاہور ہائی کورٹ میں صوبے میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے پنجاب میں تین مرتبہ حلقہ بندیاں کر چکا یے۔ دوسری جانب پنجاب حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو بلدیاتی ایکٹ 2024 میں ترامیم کا بل پنجاب اسمبلی سے جلد پاس کروانے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اس عمل کے مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک مرتبہ پھر حلقہ بندیوں کی تفصیل اور انتخابی شیڈول جاری کرنے کا قابل ہو گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ’بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات کو ترجیح نہیں دیتی، لہٰذا موجودہ حکومت بھی اس حوالے سے سنجیدہ نہیں۔

26فروری 2025 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے الیکشن کمیشن کو بتایا ہے کہ صوبائی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر کام شروع کر دیا تھا کیونکہ تمام شراکت داروں کی جانب سے رائے کا اظہار ضروری ہوتا ہے لہٰذا اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی مسودہ پنجاب اسمبلی میں ضروری قانون سازی کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔  انکا کہنا تھا کہ جونہی قانون سازی  کا عمل مکمل  ہو گا تو قانون کے تحت رولز بھی  بنا دیے جائیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن بھی صوبے میں الیکشن کے انعقاد کے لیے صوبائی حکومت کی ہر قسم کی معاونت کے لیے تیار ہے۔

سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ ہماری بلدیاتی انتخابات سے متعلق تیاری مکمل ہے، اس حوالے سے نواز شریف اور مریم نواز اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں اور ہماری قیادت بلدیاتی انتخابات کی تیاری سے متعلق ہدایات جاری کر رہی ہے۔انکا کہنا تھا کہ بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کے لیے بل پنجاب اسمبلی میں پیش ہوچکا ہے جو بحث کے بعد جلد ہی پاس کر لیا جائے گا۔ ملک احمد خان کے مطابق نئے قانون کے تحت اضلاع کی بجائے تحصیلوں میں ٹاؤنز چیئرمین بنائے جائیں گے، ہر یونین کونسل میں نو ممبران ہوں گے جو اپنا چیئرمین منتخب کریں گے۔ یونین کونسل سے منتخب نمائندے تحصیل اور ٹاون کے چیئرمین منتخب کریں گے۔

دوسری  جانب اپوزیشن جماعتیں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہ کروائے جانے پر تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔پنجاب میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچڑ کا کہنا یے کہ ’ہم بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں، ہمارے امیدوار بھی طے ہو چکے ہیں لیکن پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے سے اس لیے گریز کر رہی ہے کہ انہیں عوام کی حمایت نہ پہلے حاصل تھی اور نہ ہی اب عوام انہیں ووٹ دیں گے۔ اس لیے حکومت اپنی مرضی سے قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور تاخیری حربے بھی استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کروا دی ہے لیکن ابھی تک اجلاس نہیں بلایا گیا، جب اجلاس میں بلدیاتی ترامیمی بل پیش ہو گا تو ہم اپنے اعترضات جمع کروائیں گے۔‘

دوسری طرف جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا رہے، آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت بلدیاتی انتخابات کروانا لازمی ہے۔ جمہوری نظام میں گراس روٹ لیول پر اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں۔ موجودہ بلدیاتی ایکٹ میں بیوروکریسی کو مالی اختیار دینا منتخب نمائندوں کی حق تلفی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے عدم انعقاد کے باعث جاگیرداروں کا عروج جبکہ کمزور طبقہ مزید کمزور ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت وفاقی حکومت اور الیکشن کمشن کو پنجاب میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم دے۔ عدالت آئینی فرائض سے غفلت برتنے پر فریقین کو جرمانہ بھی عائد کرے، عدالت موجودہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں ترامیم کا حکم دے۔ درخواست میں وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔‘

سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ ’مسلم لیگ ن کیا، کوئی بھی جمہوری حکومت نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کی حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بارز کے حالیہ انتخابات میں لاہور، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں ن لیگ کے حامی امیدواروں کو شکست ہوئی، اسی طرح عوامی سطح پر ن لیگ کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں حمایت حاصل نہیں۔ اس لیے حکومت خوفزدہ ہے کہ انہیں شکست نہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز سمیت ہر وزیر اعلیٰ چاہتا ہے کہ تمام اختیارات صوبائی حکومت کے پاس رہیں اور وہ اپنی مرضی سے حکومت چلائیں۔ لوگوں کو اپنا حامی بنانے کے لیے ممبران اسمبلی سے کام چلایا جائے جبکہ نچلی سطح تک اختیارات سے انہیں فنڈز بھی دینے پڑتے ہیں اور سیاسی مقاصد بھی اس طرح حاصل نہیں ہوتے جس طرح یہ کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا عوامی مسائل کا نچلی سطح پر حل کسی حکومت کی ترجیح نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ گلیاں، نالیاں، سولنگ جیسے بنیادی مسائل بھی اراکین قومی اسمبلی یا اراکین صوبائی اسمبلی کے ڈیرے پر جا کر ہی حل ہوتے ہیں۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی نے اس بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر عوام کو آسانیاں دینے کی بجائے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ہی سیاسی جماعتیں عوام میں جمہوریت کے ثمرات پہنچانے میں ناکام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام پاکستان میں جمہوریت اور آمریت کا فرق ہی محسوس نہیں کر سکے، سیاسی جدوجہد بھی اسی لیے اقتدار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سلمان غنی کے مطابق ’اگر دیکھا جائے تو ماشل لا کے ادوار میں زیادہ بہتر اور بااختیار بلدیاتی حکومتیں کام کرتی رہیں۔ ان ادوار میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوئے اور لوگوں کو ضلعی حکومتوں کی افادیت کا اندازہ ہوا۔ انکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت بھی کیونکہ سیاسی جماعت کی ہے اس لیے ان کی ترجیح بھی بلدیاتی نظام کی بجائے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی سوچ دکھائی دیتی ہے۔‘

Back to top button