بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 7 ہزار سے تجاوز کر گئی

تمام تر حکومتی دعووں کے برعکس بلوچستان میں پرسرار طور پر لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور گم شدہ افراد کی تعداد 7 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” نے دعویٰ کیا ہے کہ سال 2025 کے پہلے دہ ماہ میں 100 سے زائد افراد لاپتا ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان میں رواں سال دہشت گردی کے واقعات میں بھی اسی تواتر سے اضافے کے اعدادوشمار سامنے آ رہی ہیں۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ صرف جنوری 2025 میں 55 سے زائد افراد کے لواحقین نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کے پیاورں کو جبری طور پر لاپتا کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول فروری 2025 میں بھی 45 سے زائد افراد لاپتا ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومتی دعووں کے برعکس بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تعداد میں کمی کی بجائے ایک بار پھر اضافہ ہو گیا یے۔ اُنکے بقول ہم شروع دن سے کہتے آرہے ہیں کہ اگر کسی کے خلاف کوئی الزام ہے تو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا اور اگر وہ ریاست مخالف کسی بھی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اسے آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔” نصر اللہ بلوچ کے مطابق بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے چار ہزار افراد کے کیسز مختلف کمشنز کو فراہم کیے گئے ہیں۔
دو ماہ کے دوران 100 سے زائد افراد کی جبری گمشدگی کے دعوؤں کے حوالے سے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے رابطہ کیا گیا لیکن انکی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ماضی میں ترجمان بلوچستان حکومت یہ کہہ چکے ہیں کہ لاپتا افراد کی تلاش کے لیے ایک خصوصی کمیشن موجود ہے اور اگر متاثرہ افراد کے پاس ثبوت موجود ہیں تو وہ کمیشن کو اپنی شکایات درج کرائیں۔ ایک ماہ پہلے تک اس کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال تھے لیکن ان پھر کی جگہ فقیر محمد کھوکھر کو لاپتہ افراد کمیشن کا چیئرمین بنا دیا گیا جو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر حبیب طاہر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں نہ صرف پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے جو باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں حالیہ واقعات اس مرکزی حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے ہیں جو عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔ ان کے بقول بلوچستان کے معاملات کو آئین کے بر خلاف مرکزی سے چلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔
بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی کے واقعات کے حوالے سے مختلف اوقات میں حکومت کی جانب سے بیانات آتے رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لاپتا افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا اسے پیش کیا جاتا ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ صرف پاکستان تک نہیں۔ پوری دنیا میں یہ مسئلہ موجود ہے۔ ان کے بقول بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں بھی شامل تھا۔
لاپتا افراد کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ مارچ 2011 سے ایک آزاد کمیشن بنایا گیا۔ اب تک مسنگ پرسنز کے کمیشن کے پاس 10 ہزار 218 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 80 فی صد یعنی سات ہزار کیسز کو کمیشن نے حل کر دیا۔ ان کے بقول دنیا بھر میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔