کابینہ سے منظور آئینی ترامیم کےعدلیہ سے متعلق نکات سامنے آگئے

وفاقی کابینہ سےمنظور عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے مسودے کے نکات سامنے آگئے۔

منظور شدہ مسودےکےمطابق جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرےگا، آئینی بینچز میں تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گےاورآرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا۔

مسودے یں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 185کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچزکے دائرہ اختیارمیں آئیں گے،چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکیا جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججزمیں سےچیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔

مسودہ کےمتن کے مطابق کمیٹی کی سفارش پرچیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکارکی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیرغورلایا جائے گا اور چیف جسٹس کے تقررکے لیے12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی،پارلیمانی کمیٹی میں8 ارکان قومی اسمبلی4 ارکان سینیٹ سےہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت3 سال ہوگی۔

ترمیم میں کالےسانپ کےدانت توڑکرزہرنکال دیا،فضل الرحمان

چیف جسٹس کےلیےعمر کی بالائی حد65 سال مقررکرنے کی تجویز دی گئی۔

مسودے کے مطابق آرٹیکل184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنےطورپرکوئی ہدایت یا ڈیکلیئریشن نہیں دےسکتی، آرٹیکل186 اےکےتحت سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے کسی بھی کیس کوکسی دوسری ہائیکورٹ یا اپنے پاس منتقل کرسکتی ہے،ججز تقرری کمیشن ہائیکورٹ کے ججزکی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا۔

Back to top button