صدر ٹرمپ کا خود اڈیالہ جیل جا کر عمران کو رہا کروانے کا امکان

سینیئر اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے امریکی صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک تخیلاتی دورہ پاکستان کی منظر کشی کی ہے جس کے مطابق پاکستانی صدر اور وزیراعظم انکل سام کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتے ہیں تو وہ انہیں بتاتے ہیں کہ ہم لوگ سیدھے اڈیالہ جیل راولپنڈی جا رہے ہیں تاکہ عمران خان کو رہائی دلوائی جا سکے۔ اس خواب کا اختتام کیسے ہوتا ہے یہ اپ کو آگے چل کر پتہ چلے گا۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ بتاتے ہیں ہیں کہ پنجاب کے خطے میں امیر کبیر اور صنعت کار گھرانوں میں رواج ہے کہ بڑے بھائی اور خاندان کے چیئرمین کو میاں صاحب اور ان کے چھوٹے بھائیوں کو حاجی صاحب یا بٹ صاحب پکارا جاتا ہے۔ چونکہ ٹرمپ بھی عمر میں بڑے ہیں اور ایک صنعتی تجارتی گروپ کے چیئرمین بھی ہیں تو گویا وہ بھی پنجاب میں میاں ٹرمپ کہلائیں گے۔ ہمارے تقریباً سارے میاں صاحبان الحاج ہوتے ہیں جوانی میں تو ادھر ادھر منہ مار لیتے ہیں مگر جونہی عمر پختہ ہوتی ہے مذہبیت ان میں بڑھتی چلی جاتی ہے، جوانی میں تھائی لینڈ کے دورے اور پختہ عمری میں بار بار عمرے انکی زندگی کا اہم عنصر رہتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میاں ٹرمپ کی بھی ساری عادتیں ہمارے پنجاب کے میاں صاحب جیسی ہیں، انہوں نے جوانی میں کیا کچھ نہ کیا؟ فحش اور جنسی سکینڈلز میں بار بار ملوث ہوئے، اپنی تجارتی سلطنت کھڑی کرنے کے لئے ہر طرح کی ہیر پھیر سے کام لیا مگر اب وہ پکے عیسائی بن گئے ہیں اب مذہب کا نام ہر وقت ان کے لبوں پر ہوتا ہے، بائبل خطے سے انہیں سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں وہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں چرچز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کے دورے پر جاتے ہیں اور اپنے سیاسی نظریات کو مذہبی نظریات کے ساتھ جوڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے میاں صاحب بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر یقین رکھتے ہیں، امریکی میاں ٹرمپ نے تو چار شادیاں کی ہیں اور سب کے بچوں کو ساتھ چلا رہے ہیں۔

سینیئر صحافی لکھتے ہیں کہ ہمارے پنجابی میاں صاحب اور امریکی میاں صاحب میں بہت سی اقدار مشترک ہیں، دونوں اخلاقیات کا پرچارک کرنے میں سب سے آگے ہیں لیکن اپنے کاروبار میں یا ملکی معیشت میں کسی اخلاقیات کے قائل نہیں، وہ جنگوں کے اس لئے خلاف نہیں کہ یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہوتی ہیں بلکہ اس لئے کہ جنگیں ذاتی معیشت اور قومی معیشت دونوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، ہمارے میاں صاحب بھی گورنمنٹ کو ٹیکس دینے کے قائل نہیں اور میاں ٹرمپ بھی لہازا ان کے خلاف بھی ٹیکس اور کرپشن کے کئی مقدمات چلائے رہے ہیں۔

اس بار میاں ٹرمپ نے دوبارہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد دورہ پاکستان کا فوری فیصلہ کر لیا ہے، اصل میں وہ اپنے ذاتی یار کپتان خان کے جیل میں بند ہونے پر بہت پریشان ہیں، دوسرا انکی اہلیہ میلانیہ بھی کئی پاکستانی خواتین کی طرح ان کی پرستار ہیں، ان میں سے کوئی بھی رات کو خان کے فراق میں سو نہیں پاتیں کیونکہ وہ جیل میں بند ہے، یہ خواتین رات کو سوتی تو اپنے شوہروں کے ساتھ ہیں لیکن سپنے خان کے دیکھتی ہیں، دوبارہ امریکہ کی خاتون اول بن جانے کے بعد میلانیہ بار بار میاں ٹرمپ کو جگا جگا کر ان پر دبائو ڈالتی ہیں کہ فوراً پاکاتان جائیں اور خان کو باہر لائیں، اپنی اہلیہ کے دبائو اور اوورسیز پاکستانیوں کے درد دل کو محسوس کرتے ہوئے میاں ٹرمپ بھی اپنا چین اور سکون کھو چکے ہیں راتوں کو کروٹیں لیتے لیتے انکے منہ سے بے اختیار اِمّی اِمّی نکلتا ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ خیر میاں ٹرمپ کے دورہ پاکستان کا اعلان ہوتے ہی جنوبی ایشیا میں کھلبلی مچ گئی۔ مودی نے بار بار ٹیلی فون کرنا شروع کر دیا کہ میاں ٹرمپ پہلے بھارت آئیں، مگر ٹرمپ کی مودی سے یاری تو ہے لیکن عشق صرف کپتان سے ہے۔ پھر وہ اپنی بیوی کی وجہ سے بھی مجبور ہیں، اس دوران چینی بھی پریشان ہو گئے کہ ٹرمپ پاکستان جا کر کیا چن چڑھائے گا؟ مڈل ایسٹ میں مسلم ممالک اور اسرائیل دونوں کے کابینہ اجلاس بلا لئے گئے کہ میاں ٹرمپ پاکستان چلا گیا تو ہماری اہمیت کا کیا بنے گا؟ دنیا بھر کے ممالک کوشش میں لگ گے کہ کسی نہ کسی طرح ٹرمپ کو پہلے اپنے ملک بلائیں، مودی نے تو یہاں تک بیان دے دیا کہ چاہے وہ پاکستان جا کر قیام کریں لیکن کچھ دیر کے لئے دہلی اسٹاپ اوور ضرور کریں۔

میاں ٹرمپ کے دورہ پاکستان سے پیدا ہونے والی لہر بحر میں لندن میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے صحافی شریک ہوئے۔ لائیو ٹیلی کاسٹ ہونے والی اس پریس کانفرنس میں خان کے کنی کھانے والے یار غار اور ٹرمپ کے داماد کے دوست زلفی بخاری نے یہ اعلان کر کے سنسنی پھیلا دی کہ وہ میاں ٹرمپ کے ساتھ پاکستان جا رہے ہیں اور امریکی صدر خود اڈیالہ جیل کا دروازہ کھولیں گے۔ لہازا پاکستانی سرکار نے اس پریس کانفرنس کے فوراً فیصلہ کیا کہ اشتہاری ذلفی بخاری کے تمام مقدمات ختم کرکے انہیں وی وی آئی پی سٹیٹس دیا جائے اور راتوں ر ات عدالت لگا کر انکے خلاف قائم تمام مقدمات ختم کر دیئے گئے۔

سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ جب میاں ٹرمپ، ذلفی اور میلانیہ کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اسلام آباد میں اترے تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے وزرا اور وزیر اعظم قطار اندر قطار کھڑے تھے۔ جس طرح صدر بش کے زمانے میں رچرڈ آرمیٹج نامی پہلوان کے فون پر جنرل مشرف کی حکومت ڈھیر ہو گئی تھی اب بھی فوج کا وہی حال تھا۔ پاکستان چونکہ ہمیشہ سے امریکہ کا دست نگر رہا ہے اس لئے فوج بھی لائن حاضر ہو چکی تھی۔ باوردی دستے ترمپ کو سلامی کے لئے تیار تھے، راولپنڈی اور اسلام آباد کی ساری خلقت استقبال کے لیے سڑکوں پر امڈ آئی تھی، لوگوں نے کپتان خان اور میاں ٹرمپ کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں، ہر جانب سے امریکہ زندہ باد، ٹرمپ پائندہ باد کے نعرے بلند ہو رہے تھے، میاں ٹرمپ نے جہاز سے اترتے ہی صدر اور وزیر ا عظم سے ہاتھ ملایا اور سلامی کے چبوترے کی طرف جاتے ہوئے وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ یاد رکھیے، ہم سیدھے اڈیالہ جیل جائیں گے، باقی سب تقریبات کینسل کر دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ وزیراعظم پاکستان کو بتاتے ہیں کہ کپتان کو نکالنے کے لیے میں اور ذلفی اڈیالہ جیل کا دروازہ خود کھولیں گے۔ وزیر اعظم اثبات میں سر ہلا کر اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہدایت دیتے ہیں کہ مہمان صدر کے ایئرپورٹ سے سیدھا اڈیالہ جیل جانے کے انتظامات کئے جائیں۔

آرمی چیف کی مدت میں اضافے کے بعد سینئیر افسران کیا چاہتے ہیں؟

اس دوران اچانک ہر طرف موسیقی کا شور سنائی دینے لگتا یے، پرندے چہچہانے لگتے ہیں، سبز طوطے فضا سے نمودار ہو کر انسانوں کی طرح بولتے ہوئے عمران اور ٹرمپ کی رٹ لگا دیتے ہیں، بلبلیں اور پیپیہے نغمہ فغاں ہو جاتے ہیں، ڈھولی اور راگ و ساز سے کھیلنے والے رنگ برنگے کپڑے پہنے سڑک کے دونوں طرف کھڑے ساز چھیڑنا شروع کر دیتے ہیں، ہر طرف جشن کا سماں بندھ جاتا یے، میاں ٹرمپ، ذلفی اور میلانیہ ایک ہی گاڑی میں سوار ہوتے ہیں، ذلفی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہیں، ٹرمپ آگے بیٹھ جاتے ہیں اور میلانیہ پیچھے۔صدر وزیر اعظم اور فوجی گاڑیاں انکے پیچھے چلنا شروع ہو جاتی ہے، یہ کارواں اڈیالہ جیل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

کلائمیکس پر پہنچ کر سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ کپتان کی رہائی میں چند ہی لمحے باقی ری گے تھے لیکن اچانک ایک زوردار دھماکے سے انکی آنکھ کھل جاتی یے۔ وہ بتاتے ہین کہ میں نے کھلی انکھوں سے دیکھا تو پاکستان ویسے کا ویسا ہی تھا، جو کچھ میں دیکھ رہا تھا وہ صرف ایک خواب تھا۔۔۔۔

Back to top button