ڈونکی راجہ کی بے شرمی کی کہانی، رؤف کلاسرا کی زبانی

معروف صحافی اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی و بربادی کا شکار ہونے والے عوام کا دکھ بٹانے کی بجائے سلمان اکرم راجہ نے اسے اللہ کا عذاب قرار دے دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بے حسی کے مارے راجہ سلمان کو ایسی فضول گفتگو کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ وسطی پنجاب سے جنوبی پنجاب تک سیلاب میں گھرے ہوئے غریب اور مظلوم عوام اپنے بچوں کی لاشیں اٹھائے پھر رہے ہیں جبکہ ڈونکی راجہ انہیں بتا رہے ہیں کہ ان کے بچے اس لیے ڈوب کر مر گئے کیونکہ انہیں 20024 کے الیکشن میں ہروا دیا گیا تھا۔ رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ یہ کیسے سنگدل اور بے حس لوگ ہیں جو ایک خوفناک انسانی المیے کو بھی سیاسی طور پر کیش کروانے کی کوشش کر رہے ہیں، غریب عوام پانی سے اپنے پیاروں کی لاشیں نکال رہے ہیں اور سلمان اکرم راجہ جیسے سنگدل شہری بابوں کو اپنا الیکشن ہارنے کا دکھ ہے۔
رؤف کلاسرا اپنے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ پہلے وسطی پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے انسانی المیہ دیکھا تو دل دکھی ہوا۔ اب اس سے بڑا المیہ سرائیکی علاقوں میں جنم لے چکا ہے۔ سیلاب وسطی پنجاب کے علاقوں سیالکوٹ‘ نارووال‘ شکر گڑھ پھر لاہور کے قریبی علاقوں میں تباہی پھیلاتا آگے ملتان‘ مظفرگڑھ اور بہاولپور کی طرف نکل گیا۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ سیلاب بڑے عرصے بعد آیا ہے‘ لہٰذا نہ حکومت تیار تھی‘ نہ انتظامیہ اور نہ ہی عوام۔ یوں کہیں ان تینوں نے مل کر دریائوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا جیسے دریا اب سوکھ چکے ہیں اور کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ان تینوں نے مل کر بیورو کریسی اور ٹھیکیداروں کی مدد سے ہر جگہ ہاؤسنگ سکیمیں بنا کر زمینیں ہڑپ کر لیں۔ اس کھیل میں یقینا حکومتیں‘ بیورو کریسی یا بلڈرز تک امیر ہوئے لیکن جن لوگوں کو ان دریائوں کے اندر زمینیں پلاٹ بنا کر بیچے گئے تھے نقصان ان کا ہوا اور سوشل میڈیا پر جگتیں بھی سننے کو ملیں کہ دریا کو اپنی زمینوں سے غیر قانونی قبضہ چھڑانے کیلئے خود آنا پڑا۔ جن زمینوں کے قبضے پنجاب میں حکمران اور پولیس تک نہیں چھڑا سکتی تھی وہ دریا نے ایک ہی رات میں چھڑا لیے۔
کلاسرا کہتے ہیں کہ چلیں مان لیا جو نقصان وسطی پنجاب میں ہوا وہ اچانک تھا لہٰذا پتا نہیں چلا، اوپر سے ہم نے سب کچھ بھارت پر ڈال دیا۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے تو ذرا دیر نہیں لگائی اور فوراً فرما دیا کہ بھارت نے آبی جارحیت کی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ وسطی پنجاب کو ڈبونے میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ منصوبہ بندی کے وزیر ہیں‘ نہ انکا قصور ہے اور نہ ہی ارب پتی بلڈرز یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کا جنہوں نے دریائوں کی زمینوں پر قبضے کر کے سرکاری زمینیں تک الاٹ کر کے اربوں روپے کے پلاٹ بیچ دیے۔ اب سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر احسن اقبال نے بلڈرز کا کام آسان کر دیا کہ اب جن عوام کا نقصان ہوا تھا وہ جائیں اور بھارت کا گریبان پکڑیں۔ اگر بھارت پانی نہ بھیجتا تو کسی کا نقصان نہ ہوتا۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ خود بھارت کے اندر دریائوں اور بارشوں کی وجہ سے شاید پاکستان سے بھی زیادہ تباہی ہو چکی ہے۔ جو دانشور ہمیں بتا رہے تھے کہ بھارت چاہتا تو ڈیمز میں پانی روک سکتا تھا لیکن اس نے پاکستان کو ڈبونا مناسب سمجھا‘ ان کو کون سمجھائے کہ بھارت پانی روک سکتا تو ضرور روک لیتا کیونکہ پانی سے زیادہ قیمتی کیا چیز ہو سکتی ہے۔ بھارت میں بھی اب تک سینکڑوں لوگ سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ جانور اور گھروں کا سامان تک پاکستان کے اندر سیلاب میں بہتا ہوا دیکھا گیا۔ گائوں کے گائوں برباد ہو گئے‘ لیکن احسن اقبال ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارا اس میں کوئی قصور نہیں سب قصور بھارت کا ہے‘ نہ وہ پانی چھوڑتا نہ سیلاب آتا۔
رؤف کلاسرا سوال کرتے ہیں کہ اگر اگر پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے حریف ہمسائے نہ ہوتے تو ہمارے لیڈروں کا کیا بنتا؟ بھارتی حکمران اپنی ہر ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتے ہیں اور پاکستان اُن پر ڈال دیتا ہے‘ یوں دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو اپنے دکھوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں نہ کہ اپنے لیڈروں یا بیورو کریسی کی نالائقی اورکرپشن کو۔ یوں ان کے احتساب کا کوئی نعرہ نہیں لگتا۔ کوئی اس بات پر رولا نہیں ڈال رہا کہ آخر دریا کی زمین کیسے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو الاٹ ہوئی‘ کیسے بیچی گئی؟ بس بھارتی آبی جارحیت کا نام دے کر سب کا منہ بند کرا دو۔ کلاسرا کہتے ہیں کہ احسن اقبال نے تو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بری الزمہ قرار دے کر چھکا مارا ہی لیکن پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرام راجہ نے تو کمال ہی کر دیا۔ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بارش اور سیلاب کی صورت میں جو عذاب نازل کیا ہے اس کی اصل وجہ حکمرانوں کی ناانصافیاں ہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یہ عذاب اس لیے آیا کہ الیکشن 2024 میں ووٹ چوری کیے گئے، یہ سب اسی کی سزا ہے۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ جب میں نے سلمان اکرم راجہ کا یہ بیان پڑھا تو مجھے یقین نہ آیا کہ راجہ جیسا پڑھا لکھا آدمی ایسی بیہودہ بات کہہ سکتا ہے۔ لیکن ہھر مجھے سلمان اکرم راجہ کی پریس کانفرنس کا کلپ مل گیا جس میں انہوں نے یہی بات کی تھی، صدمے میں بیٹھا انہیں سنتا رہا۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ اگر الیکشن 2024 میں بھی الیکشن 2018 جیسی دھاندلی کی گئی تھی تو اس میں شکر گڑھ‘ نارووال‘ لاہور‘ سیالکوٹ، مظفرگڑھ؛ ملتان، یا بہاولپور کے کسانوں اور غریبوں کا کیا قصور ہے جن کی عمر بھر کی کمائی لٹ گئی‘ انکی فصلیں اور جانور سیلاب بہا کر لے گیا اور وہ پانی میں بھوکے پیاسے درختوں سے لٹکے بیٹھے ہیں؟
اس وقت جو جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں سے تباہی اور بربادی کی خبریں آ رہی ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں۔ عوام ان علاقوں میں اپنے والدین اور بچوں کو چارپائیاں الٹی کر کے پانی سے نکال رہے ہیں۔ بچے ڈوب رہے ہیں‘ مائیں بہہ رہی ہیں۔ کہیں آپ کو ریسکیو کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔ ملتان اور مظفرگڑھ انتظامیہ اس حوالے سے نالائق نکلی ہے کہ ان کے پاس انتظامات کیلئے کافی وقت تھا۔ وہاں بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ سیلاب جب وسطی پنجاب میں تھا تو ان کے پاس چار دن تھے کہ لائف جیکٹس اور کشتیوں کا انتظام کر لیتے۔ پاک فوج اور نیوی کو ہنگامی طور پر طلب کیا جاتا۔ پلان بنایا جاتا اور لوگوں کو نکالا جاتا لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ مان لیا کہ لوگ بھی گھروں سے نہیں نکلتے‘ وہ ڈرتے ہیں کہ کہاں جا کر بیٹھیں۔ اپنے گھر کا سکون کوئی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ سرائیکی علاقوں میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز حکومت نے انہیں بچانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی۔
دوسری طرف سلمان اکرم راجہ کو اب یاد آیا ہے کہ چونکہ دھاندلی کی وجہ سے وہ ایم این اے نہیں بن سکے تھے لہٰذا اللہ تعالی نے عوام پر سیلاب کی صورت میں عذاب نازل کر دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر میں کئی گائوں پتھروں کی بارش کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ لیکن وہاں سے تو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان الیکشن جیت گئے تھے‘ وہاں تو دھاندلی نہیں ہوئی پھر وہاں یہ عذاب کیوں اترا؟
خیبر پختون خواہ 9 مئی کے مجرموں کی پناہ گاہ کیسے بنا
رؤف کلاسرا سوال کرتے ہیں کہ ویسے یہ خدا کا عذاب صرف غریبوں پر ہی کیوں آتا ہے‘ یہ عذاب ڈونکی راجہ جیسے امیروں پر کیوں نہیں اترتا جو کہ دنیاوی عہدوں کی تلاش میں اپنی عزت کا جنازہ ہی نکال دیتے ہیں۔ یہ لوگ محلات میں رہتے ہیں اور کروڑوں میں کھیلتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی کا نازل کردہ سیلابی عذاب بڑا سمجھدار ہے جو ڈونکی راجہ کو الیکشن ہرانے کی سزا لاکھوں غریب عوام کو پانی میں ڈبو کر دے رہا ہے۔
